آزمائش

شیخ سعدیؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک سال دریائے نیل میں پانی کم تھا جس سے مصریوں کی زمینیں سیراب نہ ہو سکیں اس سال بارشیں بھی معمول کے مطابق نہ ہوئیں اور قحط کے آثار پیدا ہو گئے۔ لوگوں نے جب قحط کی صورتحال دیکھی تو دعائیں مانگنا شروع کر دیں۔ ان لوگوں میں سے کچھ لوگ ذوالنون مصریؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے دعا کی درخواست کی کہ آپ دعا کریں کہ اللہ عزوجل ہم پر بارش برسادے وگرنہ مخلوق اللہ کی ہلاکت کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے‘ذوالنون مصریؒ بیس دن بدین میں قیام کرنے کے بعد واپس مصر لوٹ آئے لوگوں نے آپ سے وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ میں نے سنا ہے کہ لوگوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے چرند و پرند کا رزق بھی کم ہو جاتا ہے میں نے تمہاری بات کے بعد یہ خیال کیا کہ اس وقت مصر میں مجھ سے زیادہ گناہ گاراور کوئی نہیں ہے چنانچہ میں یہاں سے چلاگیا۔شیخ سعدی ؒ اس حکایت کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ذوالنون مصریؒ کا یہ فرمانا کسر نفسی کی وجہ سے ہے اور  خاکسار بن کر ہی انسان سرفراز ہوتا ہے۔ انسان اپنے آپ کو دوسرے سے حقیر جانے  اسی میں انسان کی خیر و بھلائی ہے۔ ذوالنون مصریؒ بہت متقی اور پرہیزگار انسان تھے ان کے اخلاقیات سے متعلقہ بہت سے اقوال ”طبقات الصوفیہ“ میں مذکورہ ہیں۔شیخ سعدیؒ بیان کرتے ہیں کہ عضدالدولہ ویلمی کا بیٹا بیمار ہوگیاشاہی طبیبوں نے بے حد علاج معالجہ کیا مگر وہ صحت یاب نہ ہوسکا جب نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ موت کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا ایک برگزیدہ بندے نے کہا کہ صدقہ اور نیکی کے کام بلائیں دور کرتے ہیں اگر ان پرندوں کو جو شاہی محل اور شاہی باغات کی زینت بڑھانے کیلئے پنجروں میں قید کئے گئے ہیں انہیں آزاد کر دیا جائے تو شہزادے کی صحت یابی کی کچھ امید ہوسکتی ہے۔ عضدالدولہ کو اس شخص کا یہ مشورہ پسند آیا اور اس نے تمام پرندوں کو آزاد کرنے کا حکم جاری کر دیا ایک خوش نوا بلبل کے بارے میں عضدالدولہ نے حکم دیا کہ اسے آزاد نہ کیاجائے کیونکہ اس کی آواز اسے بے حد پسند ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ اسے کسی قیمت پر بھی خود سے جدا کرے‘ پرندوں کے آزاد ہونے کے بعد عضدالدولہ کے فرزند کی طبیعت بہتر ہوگئی اور وہ واقعی تندرست ہوگیا جب وہ غسل صحت کے بعد سیر کیلئے باغ میں پہنچا تو اس نے اس خوش نوا بلبل کا پنجرہ دیکھا اسے پرندوں کی آزادی کے متعلق علم تھا اس نے اس خوش نوا بلبل سے کہا کہ اے بلبل! تجھے بھی دوسرے پرندوں کی طرح آزادی مل جاتی اگر تو اتنی خوش الحان نہ ہوتی۔ شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ انسانوں کا بھی یہی حال ہے جب تک کوئی انسان گمنامی کی زندگی بسر کرتا ہے وہ ہر آزمائش سے محفوظ رہتا ہے اور نمایاں ہونے کی کوشش اسے آزمائشوں میں مبتلا کر دیتی ہے‘دنیاوی فوائد کو ترجیح نہیں دینی چاہئے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آخرت میں ملنے والے فوائد پر بھی ایمان ہونا چاہئے اور اس کے حصول کیلئے تیاری کرنی چاہئے۔(حکایات سعدی سے ماخوذ)