عقلمند کی مثال سیپ کی طرح ہے جو جب منہ کھولتی ہے موتی نکالتی ہے ورنہ منہ بند رکھتی ہے اسی طرح عقلمند عمدہ بات کرتا ہے ورنہ چپ رہتا ہے۔ باتونی شخص دوسروں کی بات غور سے نہیں سنتا اور خاموش رہنے والے پر نصیحت اثر کر جاتی ہے جب تو چاہتا ہی یہ ہے کہ ہر وقت بولتا رہے تو تجھے کسی کے کلام سے لذت کیسے نصیب ہو نہ تو بغیر سوچے بات کر اور نہ کسی کی بات کو کاٹ! غلط اور صحیح میں غور کرنے والا حاضر جواب بکواسی سے بہتر ہے۔ کلام کرنا انسان کا کمال ہے فضول بول کر اس کمال کو عیب دار نہ بنا! کم گو بہت بڑے ٹیلے سے کہیں بہتر ہے۔ بے وقوفی کی دس باتیں کرنے کی بجائے کام کی ایک بات ہی کر بے دھیانی میں سو تیر چلانے کی بجائے سوچ سمجھ کر ایک ہی چلا دے وہ بات چھپ کر بھی نہ کر کہ اگر وہ ظاہر ہو جائے تو (شرمندگی کی وجہ سے) تیرا چہرا پیلا پڑ جائے دیوار کے ساتھ کھڑا ہو کربھی غیبت نہ کر‘ ہوسکتا ہے کوئی دوسری طرف کان لگائے بیٹھا ہو انسان کا دل رازوں کا قید خانہ ہے جو منہ کے ذریعے نکلتے ہی تباہی پھیلا دیتا ہے لہٰذا رازوں کے شہر (دل) کا دروازہ (منہ)بند رکھ! تاکہ راز راز ہی رہے۔ عقلمند نے اسی لئے منہ کو سی رکھا ہے کیونکہ جانتا ہے کہ شمع زبان سے ہی جلنا شروع ہوتی ہے۔شیخ سعدیؒ ایک بادشاہ کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ وہ معمولی کپڑے کی قبازیب تن کرتا تھاایک دن اس کے ایک درباری نے کہا کہ حضور! آپ خزانوں کے مالک ہیں اور اتنی معمولی قبازیب تن کرتے ہیں‘ آپ کیلئے بہتر یہی ہے کہ آپ اپنے لئے بہترین چینی ریشم کی قباتیار کروائیں اور اسے زیب تن کریں۔اس بادشاہ نے جو کہ نہایت عاقل اور عادل تھا اس نے کہا کہ میرے دل میں بھی یہ خواہش ہے کہ میں اپنے لئے ایک بہترین قباتیار کراؤں مگر کیا کروں کہ یہ خزانہ میرا اپنا نہیں ہے بلکہ رعایا کا ہے اور یہ ملک ان کی ملکیت ہے‘ اس خزانے کا بہترین مصرف یہ ہے کہ میں اسے فوج پر خرچ کروں اور اسے مضبوط بناؤں‘ تاکہ وہ رعایا اور ان کے اس ملک کی حفاظت کرے۔بادشاہ دہقان سے مالیہ یعنی ٹیکس اس لئے وصول نہیں کرتا کہ اسے ظالموں کے شر سے محفوظ نہ رکھے بلکہ اگر کسی ظالم نے اسکا گدھا چھین لیا ہے تو اس سے مالیہ وصول کرنا انصاف کے خلاف ہے‘ اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جو بادشاہ قیمتی قبائیں پہنتے ہیں اور عورتوں کی مانند اپنے جسم کو سجاتے ہیں وہ میدان جنگ میں دشمنوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور رعایا بادشاہ کیلئے پھل دار درخت کی مانند ہے کہ اس کی پرورش اور نگہداشت بادشاہ کا فرض اولین ہے‘ اگر وہ اس درخت کی جڑ پر کلہاڑا چلائے گا تو سائے اور پھلوں سے محروم ہوجائے گا‘ اس سے زیادہ بزدل اور کمینہ کوئی اور نہیں جو کہ چیونٹی کے آگے سے دانہ اٹھائے۔ایک اور واقعے میں بیان کرتے ہیں کہ ایک صاحب حیثیت بندے نے اپنے قد کے مطابق چھوٹا سا مکان بنایا کسی نے اس کو کہا! میں جانتا ہوں تو اس سے بہتر بھی بنا سکتا تھا اس نے کہا! بس بس خاموش رہ! میں عالیشان مکان بناکے کیا کروں گا جب مکان چھوڑ کے مرجانا ہے تو پھر چھوڑنے کیلئے اتنا ہی کافی ہے جو سیلاب کی گزرگاہ میں مکان بنانا ہے ہوسکتا ہے مکمل ہونے سے پہلے ہی بہہ جائے عقل و تمیز والے جانتے ہیں کہ قافلہ والے راستے پر گھر نہیں بناتے‘شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ مصر میں میرا ایک نوکر تھا جو شرم کی وجہ سے نگاہیں جھکائے رکھتا۔ کسی نے مجھے کہا! اس کی گوشمالی بھی کیا کر! تاکہ اس کو کچھ عقل و ہوش آئے۔ ایک دن میں نے جب اس نوکر کو ڈانٹا تو وہی شخص جس نے مجھے نوکر کی گوشمالی کرنے کو کہا تھا وہ مجھے کہنے لگا۔ مسکین پر کیوں ظلم کرتاہے۔تو یہ دنیا والوں کی حالت ہے کہ اگر تجھے غصہ آئے تو پاگل و بے عقل کہنا شروع کردیتے ہیں اور اگر تو تحمل سے کام لے تو بے غیرت ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ کوئی سخاوت کرے تو اس کو ’ہاتھ ہولا‘رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں اور کوئی کفایت شعاری سے کام لے تو اس کو کنجوس کہتے ہیں اور طعن کریں گے کہ یہ شخص بھی باپ کی طرح چھوڑ کر بے نصیب ہی مرے گا۔ ان لوگوں کی بد زبانی سے جب نیک لوگ نہ بچ سکے تو اور کون بچے گا۔لہٰذا بچنے کا علاج صرف صبر ہے۔شیخ سعدی کہتے ہیں ایک عقل مند، صاحب کمال نوجوان جو وعظ کہنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ فصاحت و بلاغت میں مہارت رکھنے کے باوجود حروف ابجد کی ادائیگی صحیح نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے ایک دن کسی کے سامنے کہہ دیا کہ کیا وجہ ہے کیایہ نوجوان اگلے دانت نہیں رکھتا یعنی حروف ابجد کی صحیح ادائیگی نہیں کر سکتا؟ اس نے مجھے جھڑک کر کہا! تجھے اس کا ایک عیب تو نظر آگیا کئی کمال کیوں نہ نظر آئے؟ سن لے! دنیا میں دوسروں کی اچھائی دیکھنے والا قیامت کے دن برائی نہ دیکھے گا۔ اسی لئے بزرگوں نے کہا ہے خذ ما صفا۔ جو صاف ہے وہ لے لے۔ کئی کمالات والا اگر کبھی پھسل بھی جائے تو اس سے درگذر کر۔ کانٹے اور پھول اکٹھے ہی ہوتے ہیں، کانٹوں کو چھوڑ، پھول لے اور گلدستہ بنا۔ جس کی طبیعت ہی بدہو‘اس کو مور کا حسن دیکھنے کی توفیق نہیں بلکہ اس کے پاؤں کو ہی دیکھتا رہتا ہے۔ اپنے اندر صفائی پیدا کر کیونکہ اندھا شیشہ کچھ نہیں دکھاتا۔ حرف گیری چھوڑ اور اپنے چھٹکارے کی رہ تلاش کر۔ گنہگار کو وہ سزا دے جو خود گناہ گار نہ ہو۔ جب تیرا اپنا مقدمہ تاویلات کے سہارے پر ہے تو دوسرے پر سختی کرنا مناسب نہیں ہے۔ پہلے خود بدی سے رک پھر ہمسائے کو کہہ، میں جو کچھ بھی ہوں میرا ظاہر تیرے ساتھ ہے باطن پر عیب کیوں لگاتا ہے، میں ریاکار ہوں یا حق پرست اللہ خوب جانتاہے۔ جب اللہ ایک نیکی کے بدلے دس کا ثواب دیتا ہے تو تو بھی کسی کا ایک کمال دیکھ کر دس عیبوں سے درگزر کر۔ جو واعظ سونکتے بیان کرتا ہے اور ایک بار سکتہ کرتا ہے تو تجھے آخر اس کا سکتہ ہی کیوں نظر آتا ہے؟ ہاں صرف اس لئے کہ نیکی دیکھنے والی تیری آنکھ کو حسد نے بند کر دیا ہے۔انسان کی کمی بیشی جب اللہ ہی کی بنائی ہوئی ہے تو تو اس سے عیب کیوں نکالتا ہے۔ کیا ہر جنس میں اچھے اور برے نہیں ہوتے۔پھل ہی لے لو کہ اس میں چھلکا بھی ہوتا ہے مغز بھی۔ لہٰذا مغز کھالے اور چھلکا پھینک دے۔شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ یمن کے دارالحکومت صنعا میں میرا بیٹا فوت ہوگیا جس کا مجھے اتنا صدمہ ہوا کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ پھر صبر کرلیا کہ دنیا کے باغ میں جو بھی سرو کی طرح بلند ہوا موت کی آندھی نے اس کو جڑوں سے اکھاڑ کر رکھ دیا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ تیرا بچہ تو گناہوں سے معصوم گیا ہے اور تو بوڑھا ہوکر گناہوں سے لتھڑا ہوا ہے۔کاشتکار اس لئے بیقرار ہے کہ کہیں اس کے درخت بے پھل نہ ہوجائیں اور لالچی لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم بیج بوئے بغیر ہی کھلیان اٹھالیں گے تو بھی ڈر اس بات سے کہ مبادا تیرا عمل کہیں تجھے ثواب سے محروم نہ کردے اور اس خام خیالی میں بھی مبتلا نہ ہو کہ بغیر عمل کے ہی تو ثواب پالے‘ بوئے بغیر نہیں کاٹا جاسکتا۔ اسی نے پھل کھایا جس نے پودا لگایا اور اسی نے کھلوان اٹھایا جس نے بیج ڈالا۔(حکایات سعدی سے ماخوذ)