ٹی ٹوئنٹی عالمی مقابلے ’آسٹریلیا‘ کی کامیابی پر اختتام پذیر ہوئے ہیں‘ جو پانچ مرتبہ عالمی ون ڈے کرکٹ ورلڈ کپ جیت کر ریکارڈ رکھتا ہے لیکن رواں برس کے ٹی ٹوئنٹی میں اُس کی کامیابی اچھے کھیل سے زیادہ حیرت کا مجموعہ رہی اور وہ پہلی بار عالمی چیمپئن بنا ہے۔ یوں آسٹریلیا کرکٹ کی دنیا کا جو واحد تمغہ اب تک نہیں جیت سکا تھا بالآخر حاصل کر چکا ہے۔ ٹورنامنٹ شروع ہونے پر آسٹریلیا سے بہت کم توقعات تھیں‘ بالخصوص برطانیہ کے ہاتھوں گروپ میچ میں بُری طرح شکست کے بعد تو آسٹریلیا کیلئے جیت کے امکانات کم ہی نظر آرہے تھے تاہم اس مقابلے کے بعد جس طرح آسٹریلیا نے ایونٹ میں واپسی کی اور سخت سے سخت حریف کو شکست دے کر ٹرافی اپنے نام کی ہے‘ وہ ثابت کرتا ہے کہ آخر آسٹریلیا کو دنیائے کرکٹ کی ”سپر پاور“ کیوں کہا جاتا ہے۔ کسی بھی ورلڈ کپ کے فائنل میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کا پہلی بار سامنا دوہزارپندرہ میں ہوا تھا جب میلبورن کے تاریخی میدان پر آسٹریلیا نے نیوزی لینڈ کو شکست دے کر ریکارڈ پانچویں مرتبہ ورلڈ کپ جیتا تھا۔ اس لئے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ دوہزاراکیس کے فائنل سے پہلے اس شکست کے بدلے کی باتیں ضرور ہورہی تھیں۔اِس مرتبہ نیوزی لینڈ کی ٹیم صرف دل ہی جیت سکی ہے اور گزشتہ چند برس کے دوران وہ آئی سی سی کے چار ٹورنامنٹس کے فائنل تک پہنچ کر بھی ناکام ہوا ہے اور ان میں سے صرف ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ ہی جیت پایا۔ ورلڈ کپ دوہزارپندرہ سے لے کر ورلڈ کپ دوہزاراُنیس اور اب ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ دوہزاراکیس کے فائنل میں بھی شکست ہی کیویز کا نصیب بنی مگر دوسری طرف فائنل مقابلوں میں آسٹریلیا کا ریکارڈ شاندار ہے۔ اُنیس سو چھیانوے کے ورلڈ کپ میں فائنل ہارنے کے بعد آسٹریلیا نے بہت کچھ سیکھا کیونکہ اس کے بعد اُنیس سو ننانوے‘ دوہزارتین‘ دوہزارسات اور دوہزارپندرہ کے ورلڈ کپ اور اب دوہزاراکیس کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل میں آسٹریلیا کو کامیابی ملی جبکہ واحد شکست دوہزاردس کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں کھائی جہاں اسے برطانیہ نے ہرایا تھا۔ یہ گزشتہ پچیس برس میں کسی بھی فارمیٹ کے ورلڈ کپ فائنل میں آسٹریلیا کی واحد شکست تھی۔ تاریخ میں صرف دوسری مرتبہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل تک پہنچنے کیلئے آسٹریلیا نے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اسے سپر بارہ مرحلے میں اپنے اہم ترین مقابلے میں برطانیہ کے ہاتھوں بُری طرح شکست ہوئی لیکن اس کے بعد ٹورنامنٹ میں جاندار انداز میں واپسی کی۔ بنگلہ دیش کو 73رنز پر ڈھیر کیا اور پھر ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک سو اٹھاون رنز کا ہدف سترہویں اوور میں حاصل کیا اور یوں سیمی فائنل میں ایک کانٹے دار مقابلے کے بعد پاکستان کو شکست دی پھر فائنل کے سب سے بڑے مقابلے میں آسٹریلیا نے بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کر کے پہلی مرتبہ عالمی چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طرح آسٹریلیا پہلی بار ٹی ٹوئنٹی کا ورلڈ چیمپئن بنا ہے‘ اسی طرح ہمیں گزشتہ چاروں آئی سی سی ٹورنامنٹس میں کوئی نیا چیمپیئن ہی دیکھنے کو ملا ہے مثلاً دوہزارسترہ میں پاکستان نے پہلی بار چیمپئنز ٹرافی جیتی تھی‘ پھر دوہزاراُنیس میں برطانیہ نے تاریخ میں پہلی بار ورلڈ کپ ٹرافی اٹھائی اور رواں سال دوہزاراکیس میں نیوزی لینڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا پہلا چیمپئن بنا۔ اس ٹورنامنٹ میں تجربہ کار اوپنر ڈیوڈ وارنر آسٹریلیا کیلئے ترپ کا پتہ ثابت ہوئے۔ انڈین پریمیئر لیگ میں مایوس کن کارکردگی اور بحیثیت مجموعی ناقص فارم کی وجہ سے ان سے توقعات نہیں تھیں لیکن وہ بابر اعظم کے بعد ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین بنے اور یہاں تک پہنچنے کیلئے انہوں نے اہم ترین میچوں میں اہم اننگز کھیلیں۔ وہ ویسٹ انڈیز کے خلاف آخری گروپ مقابلے میں 89 رنز پر ناٹ آؤٹ رہے۔ سیمی فائنل میں پاکستان کے خلاف اُنچاس رنز بنائے اور پھر نیوزی لینڈ کے خلاف فائنل میں تریپن رنز اسکور کئے اسی بنیاد پر ڈیوڈ وارنر ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی بھی قرار پائے۔ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا ایک نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ اِس سے ایشیائی کرکٹ کی زوال پذیری عیاں ہوئی ہے۔ پاکستان نے اُنیس سو بانوے میں کرکٹ کا عالمی مقابلہ جیتا اور اس کے بعد چاہے ورلڈ کپ ون ڈے کا ہو یا ٹی ٹوئنٹی‘ عموماً کوئی نہ کوئی ایشیائی ٹیم فائنل میں ضرور کھیلی مثلاً اُنیس سوچھیانوے میں سری لنکا فاتح بنا۔ اُنیس سو ننانوے میں آسٹریلیا نے فائنل میں پاکستان کو شکست دی۔ دوہزارتین میں آسٹریلیا کے مقابل بھارت تھا اور دوہزار سات میں سری لنکا۔ اسی سال ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں بھی ورلڈ کپ کا آغاز ہوا جس کے فائنل میں پاک بھارت یادگار مقابلہ دیکھنے کو ملا۔ پھر دوہزارنوکے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل میں پاکستان نے سری لنکا کو شکست دی تھی۔ ورلڈ کپ دوہزارگیارہ میں فائنل بھارت اور سری لنکا کے مابین کھیلا گیا۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ دوہزاربارہ میں ویسٹ انڈیز اور سری لنکا مقابل تھے جبکہ دوہزارچودہ میں سری لنکا نے بھارت کو شکست دی تھی۔ یہ آخری ورلڈ کپ تھا کہ جس میں کوئی ایشیائی حریف فائنل تک پہنچا۔ اس کے بعد ورلڈ کپ دوہزارپندرہ‘ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ دوہزارسولہ‘ ورلڈ کپ دوہزاراُنیس اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ دوہزاراکیس چاروں میں غیر ایشیائی ٹیمیں فائنل تک پہنچیں یعنی گزشتہ چاروں ورلڈ کپ ٹورنامنٹس ایشیائی ٹیموں کیلئے بہت مایوس کن ثابت ہوئے یقینا پاکستان سمیت ایشیائی ممالک اپنے ہاں کرکٹ کی زوال پذیری کو محسوس کر رہے ہوں گے اور کرکٹ میں ایشیا کی واپسی زیادہ دور نہیں لگ رہی۔
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات