منافع بخش سودا

تجارت کے اصولوں میں دنیاوی منافع اور نقصان کے ساتھ ساتھ آخرت کے فائدے اور خسارے کو مد نظر رکھنے والے ہی اصل تاجر ہیں۔ دلال نے کہا حضرت! بادام بیچ ڈالئے، حضرت نے پوچھا، کیوں؟ تو وہ بولا، آپ کو معلوم نہیں کہ بازار چڑھ گیا ہے، جواب دیا، مجھے اس سے کچھ مطلب نہیں! دلال نے کہا آپ کیا بات کرتے ہیں؟ فرمایا جو سچی بات ہے وہی کہنے کی کوشش کرتا ہوں۔دلال نے سوچا، یہ عجیب آدمی ہے، بازار میں بیٹھا ہے، اس میں ذرا تاجرانہ ہوشیاری نہیں، آدمی دکان کھول کے بیٹھتا ہے تو اس کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ نفع کمانا! قسم کھاکے بولے کہ چیز خالص ہے اور جی بھر کے اس میں ملاوٹ کرے، ملاوٹ کرے تو یہ نہ دیکھے کہ اس کااثر کیا ہوگا؟  جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ طرز عمل نقصان کا سودا ہے منافع کا ہرگز نہیں۔اللہ کے رسول ؐ نے تو ہمیں صاف بتادیا کہ کم تولنے کم ناپنے والے، جھوٹی قسمیں کھاکے مال بیچنے والے ذخیرہ اندوزی، چور بازاری اور ملاوٹ کرنیوالے قیامت کے دن بڑی سخت پکڑ میں ہوں گے اور اس دنیا میں بھی ان کا حشر بُرا ہوگا، دیر سے ہو یہ اور بات ہے مگر قانون قدرت یہ ہے کہ ایسے لوگ کبھی دل کا چین اور زندگی کی راحت نہ پائیں گے، جو اسلامی معاشرے کو بگاڑے گا اللہ تعالیٰ ضرور اس پرعذاب نازل کرے گا، یہی نہیں یہ بات بھی یاد رکھئے کہ زیادہ نفع لینے والے بھی انہی میں شامل ہوں گے، زیادہ نفع سود ہوتا ہے وہ جس دلال نے بادام کے سودے کی بات کی تھی، یہ بات چیت حضرت سری سقطی سے ہوئی‘ دلال نے چاہا کہ زیادہ منافع پر ان کا مال نکلوائے، خزینتہ الاصفیا میں ہے، انہوں نے منع کردیا، فرمایا میں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کر رکھا ہے کہ دس دینارپر آدھے دینار سے زیادہ نفع نہ لوں گا، ایسا نفع کس کام کا جو حرام ہو، آپ کہا کرتے تھے جوانمر د وہ ہے جو بازار میں بھی اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے۔ ایک اور واقعہ مذکور ہے‘ مالک نے کہا……مجھے گھوڑا خریدنا ہے غلام نے کہا بہت اچھا میں آپ کے لئے ایک گھوڑا پسند کرلاتا ہوں۔غلام مدینے کے بازار میں پھرتا رہا پھرتا رہا تاکہ آنکہ اسے ایک گھوڑا پسند آگیا گھوڑا کیا تھا۔ پری پیکر‘ سبک خرام صبارفتار‘ غلام نے خوب اچھی طرح دیکھ بھال کے اس کا سودا کیا بیچنے والے نے کہا …… میں تین سو درہم لونگا! غلام نے کہا…… منظور! سودا ہوگیا تو قیمت دلوانے کے لئے وہ گھوڑے اور سودا گردونوں کو اپنے مالک کے پاس لے آیا۔ یہ جو غلام بازار سے گھوڑا پسند کے اپنے مالک کے پاس لے آیا تھا اسے مالک نے دیکھا تو بہت خوش ہوا پوچھا قیمت کیا قرار پائی؟ غلام نے کہا تین سو درہم! گھوڑا بیچنے والے سے پوچھا …… اس دام میں بیچنے کو تم تیار ہو؟ اس نے جواب دیا جی ہاں!خوشی سے تیار ہوں! خریدنے والے حضرت جریرین عبداللہؓ تھے صحابی رسول اللہ ؐ انہوں نے دیکھا گھوڑا اچھا ہے اور بہت اچھا مگر دام کم ہیں اور بہت کم۔ وہ جانتے تھے کہ اللہ اور رسولؐ کا ایسے سودے کے بارے میں کیا حکم ہے اس لئے انہوں نے لمحے بھر کے لئے یہ نہ سوچا کہ قیمت طے پاچکی ہے ان کا فائدہ ہی فائدہ ہے بلکہ گھوڑے کے مالک سے کہا۔ تمہارا گھوڑا قیمتی ہے تین سو درہم اس کے دام کم ہیں کیا تم چار سودرہم میں اسے فروخت کروگے وہ تو قیمت طے کرکے آیا تھا یہ پیش کش اسے عجیب معلوم ہوئی لیکن وہ جانتا تھا مسلمان بڑا ذمہ دار بندہ ہوتا ہے اسے ہمیشہ یوم الحساب کا خیال رہتا ہے۔ترجمہ ہر حال میں انصاف روا رکھو کے حکم کو وہ کبھی نہیں بھولتا سودا گر نے جب چار سو درہم کی بات سنی تو خوشی بولا آپ کا شکریہ مجھے چار سو درہم منظور ہیں حضرت جریرؓ نے فرمایا……بھائی! چار سو درہم بھی اس کے دام کم ہیں اس کی قیمت تو اور زیادہ ہے غرض یہ کہ جب گھوڑا خریدا گیا تو بڑھاتے بڑھاتے اس کے دام آٹھ سو درہم کردیئے گئے کہاں تین سو درہم کہاں آٹھ سو؟ پانچ سو درہم زیادہ خریدنے والے نے اپنی خوشی سے دیئے تھے کسی نے حضرت جریرؓ سے پوچھا…… یہ اتنے دام بڑھا کے آپ نے کیوں دیئے مزے سے سستا سودالے لیتے؟ انہوں نے جواب دیا…… گھوڑے کے مالک کو معلوم نہ تھا کہ گھوڑے کی صحیح قیمت کیا ہے میں نے اسے صحیح دام دیئے اگر بیچنے والا ضرورت مند ہو یا اسے چیز کے صحیح دام معلوم نہ ہوں تو اس سے اونے پونے خریدنا بھی گناہ ہے۔(شاہ بلیغ الدین کی ریڈیو سے نشرشدہ تقریر سے اقتباس)