قصہ ایک خط کا

معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی ریڈیو پروگرام کا قصہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک خط کیساتھ عجب قصہ ہوا جس کے نتیجے میں ہم عدالت میں طلب کئے جاسکتے تھے ہوا یہ کہ پاکستان سے دو حضرات لندن آئے اور وہ بھی اس شان سے کہ اپنے سامان میں ہیروئن چھپا کر لائے لندن کے ہوائی اڈے پر پکڑے گئے اور تلاشی کے دوران ان کے سامان سے ایک خط برآمد ہوا جو پاکستان سے کسی نے میرے اور پروگرام انجمن کے نام لکھا تھا پولیس والے سمجھے کہ کوئی بڑا سراغ ہاتھ لگا ہے خط کا انگریزی میں ترجمہ کراکے سوسو بار پڑھا گیا کہ شاید اس میں کوئی بڑا راز چھپا ہو ساتھ ہی پولیس والوں نے مجھ کو بھی دبوچا اور پوچھا کہ خط لکھنے والا کون ہے اور اس سے تمہارا کیا تعلق ہے؟ میں نے انہیں ویسے ہی کئی ہزار خط دکھا کر بتایا کہ ایسا ہی ایک خط ہے جو کسی سامع نے لکھا ہے اور چلتے ہوئے ان لوگوں کو تھما دیا کہ لندن جاکر عابدی صاحب کو دے دینا پولیس نے کہا کہ یہی بات عدالت میں جاکر دہرا دوگے؟ مجھے جھٹ راضی ہوتا دیکھ کر انہوں نے بات وہیں ختم کردی البتہ جب دونوں مسافروں کو سزا ہوئی تو انہوں نے مجھے خوشخبری سنائی۔حیرت ہے کچھ لے دے کر یا کسی بااثر شخص کے ٹیلی فون پرانہیں چھوڑا نہیں یہ کیسی پولیس ہے؟ ہمارے پروگراموں میں کبھی کبھی تحریری مقابلے بھی کرائے جاتے تھے انگلستان کی ایک شہزادی کی شادی ہورہی تھی ہمارے نگران صاحب کی رگ پھڑ کی اور انہوں نے تجویز پیش کی کہ سننے والوں کو شہزادی کا سہرا لکھنے کی دعوت دی جائے شاعروں کی تو یوں بھی کمی نہیں دیکھیں ہمارے سامعین کیسی کیسی سخن آرائی کرتے ہیں لیجئے صاحب‘اعلان ہونا تھا کہ ڈاک میں شہزادی اور ان کے دولہا کی شان میں سہرے آنے لگے اس سارے عمل میں دلوں کی قربت نے ایسی شکل اختیار کی کہ زیادہ تر خطو ں میں مجھے نام لے کر مخاطب کیا جانے لگا ایک خط پاکستان کے قبائلی علاقے سے کسی نوجوان نے لکھا ’عابدی صاحب‘ ہم لوگوں نے تھوڑی بہت تعلیم پالی ہے لیکن ہماری ماں بالکل ان پڑھ ہے اور اسے اردو بالکل نہیں آتی‘ اس نے کہا ہے کہ رضا عابدی کو لکھو کہ وہ جو خبریں پڑھتا ہے وہ میری سمجھ میں آجاتی ہیں‘میں نے وہ خط تمغہ بناکر اپنے سینے پر سجالیا‘انجمن میں کبھی کبھی سنجیدہ بحث بھی چھڑی‘پروگرام انجمن نے بی بی سی کو بے شمار دوست دیئے بھوپال کے جہاں قدر چغتائی اور کراچی کی ستارہ جبیں قاضی تو ہم لوگوں سے ملنے لندن آگئے ناظم آباد کراچی سے ایک لڑکی آندھی آئے یا طوفان‘اردو سروس کو خط ضرور لکھتی تھی ہم لوگوں سے ریڈیو پر کوئی بھول چوک ہو جائے تو ڈرتے تھے کہ اب اس لڑکی کا خط آئے گا اور ہم سے جواب طلبی ہوگی۔