عجیب لوگ

آغا ناصرزیڈ اے بخاری سے ملاقات اور ایک دانشور سے متعلق بخاری صاحب سے سنا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بخاری صاحب سے میری آخری ملاقات تھی غالباً میں ایک مختصر دورے پر کراچی گیاتھا‘ایک صبح کراچی ٹی وی کے جنرل منیجر نے مجھے بتایا کہ بخاری صاحب کافون آیاتھا وہ خفا ہو رہے تھے کہ اس بار میں ان سے ملنے کیوں نہیں آیا‘میں نے کہا انہیں معلوم ہے کہ میں ان سے ملے بغیر نہیں جا سکتا شام کو جنرل منیجر نے بتایا کہ کل دوپہر لنچ پر بخاری صاحب نے آپ کو بلایا ہے۔محفل جب ختم ہونے کے قریب تھی تو میں نے کہا’بخاری صاحب آپ جیسے بزرگوں کا دم غنیمت ہے‘آپ سے ملاقات کے بعد زندگی میں ایک نئی امنگ سی پیدا ہو جاتی ہے‘میاں ہم کیا اور ہمارا دم کیا‘ بزرگ تو ایسے ہوتے ہیں جیسے مرزا محمد سعید“ پھر انہوں نے کہا ”یہاں سے کچھ دور اس پل کے پار وہ علاقہ ہے جس کو انٹیلی جنس سکول کے نام سے پکارا جاتا ہے وہیں ہم نے آزادی کے فوراً بعد ایک عارضی قسم کا ریڈیو سٹیشن لگایا تھا‘ ریہرسل‘ میٹنگوں میں مصروف رہتے تھے‘ بڑے افسروں سے لیکر معمولی درجہ کے ملازمین تک بخاری صاحب نے ذرا وقفہ دیا اور پھر بولے ایک روز میں چھٹپٹے کے وقت اپنی گاڑی لیکر گھر واپس جانے کیلئے نکلا‘میں بہت تھکا ہوا تھا آرام سے گاڑی چلا رہا تھا کہ میں اس سامنے والی سڑک پر جہاں اب میٹرو پول ہوٹل ہے فٹ پاتھ پر مرزا سعید کو چھڑی ہاتھ میں لئے گزرتے دیکھا‘ مرزا سعید ایک بڑے دانشور تھے۔ میں نے انہیں دیکھ کر گاڑی آہستہ کرلی اور جب انکے بالکل قریب پہنچا تو اپنی گاڑی روک کر دروازہ کھولا اور کہا”قبلہ گاڑی میں آ جائیے’انہوں نے مجھے دیکھا مسکرائے اور سمٹے سمٹائے کار کی اگلی نشست پر میرے برابر بیٹھ گئے۔ کار چلی اور پھر گفتگو شروع ہو گئی اس نوزائیدہ مملکت کے مستقبل کے بارے میں اقوام عالم کے رویہ کے متعلق‘یوں ہی کار چلتی رہی اور ہم باتوں میں مصروف بند روڈ ایکس ٹینشن تک پہنچ گئے‘یہاں سے مجھے پھر گری روڈ کی طرف مڑنا تھا مجھے اچانک خیال آیا اور میں نے مرزا سعید سے دریافت کیا۔ ’حضرت بے خیالی میں پوچھنا بھول گیا۔ آپ کو اترنا کہاں ہے؟ انہوں نے ٹھہری ہوئی کار کا دروازہ کھولا اور باہر نکل کر کہا ’میں تو وہیں رہتا ہوں جہاں سے آپ نے مجھے گاڑی میں بٹھایا تھا‘دراصل میں تو شام کی چہل قدمی کیلئے نکلا تھا وہ میرے جواب کا انتظار کئے بغیر تیز تیز قدموں سے واپس جانے والے فٹ پاتھ کی طرف چلے گئے۔نئی ملازمت کا پہلا دن یادگار ہوتا ہے براڈ کاسٹر آغا ناصر اپنی یادداشتوں میں پی ٹی وی میں اپنی ملازمت کے پہلے دن کی تفصیل میں لکھتے ہیں کہ موسم سرما کی اس خوشگوار سہ پہر ٹیلی ویژن میں اپنا پہلا دن مجھے ساری جزیات کیساتھ یاد ہے پرانے ریڈیو سٹیشن سے چند فرلانگ کے فاصلے پر‘ شملہ پہاڑی کے دوسری طرف ایمپریس روڈ پرریڈیو کا نو تعمیر براڈ کاسٹنگ ہاؤس تھاریڈیو سٹیشن کے احاطے کے عقبی حصے میں جہاں گاڑیوں کیلئے بہت سے گیراج بنے ہوئے تھے ٹیلی ویژن کا عارضی شیڈ تعمیر کیاگیا تھا اسی شیڈ کیساتھ کئی سو فٹ اونچا  ٹی وی ٹاور ایستادہ تھا عمارت کے صدر دروازے سے سٹوڈیو تک کا فاصلہ تقریباً تین چار منٹ کا تھا سٹوڈیو کے دروازے کے پاس دھوپ میں ذرا فاصلے پر اینٹوں کے ایک ڈھیر پر میں نے ایک سانولی سلونی دلکش چہرے والی لڑکی کو بیٹھے دیکھا ہاتھ میں سکرپٹ جسے پڑھ پڑھ کر کچھ یاد کرنے کی کوشش کررہی تھی میں نے بڑی خوشگوار حیرت سے لڑکی کی طرف دیکھا آپ نے ٹھیک کہا مگر آپ یہ سب کیسے جانتی ہیں وہ ہنس دی اسکی ہنسی میں کھنکھناہٹ سے مجھے ایک ’مخصوص ہنسی‘ کا خیال آیا مگر یہ یاد نہ آسکا کہ وہ کس کی ہنسی سے ملتی ہے‘ وہ اپنی سریلی آواز میں پھر بولی میں آپ کو جانتی ہوں میں نے کراچی ریڈیو سٹیشن پر ایک بارآپ کو دیکھاتھا جب میں ممی کیساتھ وہاں گئی تھی میں موہنی حمید کی بیٹی ہوں کنول حمید تب مجھے اس کی مخصوص ہنسی اور آواز کی مٹھاس ایک دم سمجھ میں آگئی مگر اس سے پہلے کہ میں کچھ کہوں اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا سکرپٹ میری طرف بڑھا دیا یہ اناونسمنٹ سن لیں میں نے زبانی یاد کرنا ہے وہ کاغذ پر لکھا ہوا اناونسمنٹ دہراتی رہی اور میں چیک کرتا رہا سارا متن اسے ٹھیک ٹھیک یاد تھا مگر اسکے انگریزی زدہ لہجے کے سلسلے میں کچھ کہنا بے سود تھا اپنا اناونسمنٹ سنانے کے بعد وہ اینٹوں کے ڈھیر سے اٹھی اور مجھے ساتھ لیکر سامنے ٹی وی سٹوڈیو کے مین دروازے میں داخل ہوگئی اندر جاکر ساتھ والے کمرے کے دروازے پر ہلکی سی دستک دی پٹ کھول کراندر جھانکا اور آواز لگائیAslam you have a guest کنول حمید کے اس چھوٹے سے فقرے نے مجھے ٹیلی ویژن کی اس نئی آباد ہونیوالی دنیا کے ماحول سے بڑی حد تک آشنا کرادیا جہاں ایک نوعمر لڑکی اپنے سے کئی سال بڑے آدمی کو جو اس کا افسر اعلیٰ تھا اس کے پہلے نام سے اس طرح پکار سکتی ہے وہ یقینا اس ماحول سے بالکل مختلف تھا جو میں ریڈیو پاکستان کے سرکاری محکمے میں چھوڑ کر آیا تھا۔