افریقہ اور دو عالمی طاقتیں 

بدھ کے دن امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نیروبی کے ائیر پورٹ سے شہر کی طرف جا رہے تھے انہوں نے دیکھا کہ بڑی بڑی شاہراہیں اور پل بن رہے تھے ہزاروں لوگ کام میں جتے ہوے تھے یہ انکے لئے حیرانی کی بات نہ تھی انہیں معلوم تھا کہ یہ تعمیر و ترقی چین کے Belt And Road Initiative کے تحت ہو رہی تھی سیکرٹری بلنکن جب نیروبی کے عالیشان ہوٹل کی لابی میں داخل ہوئے تو وہ چین کے سرکاری افسروں اور کاروباری لوگوں سے کھچا کھچا بھری ہوئی تھی یہ منظر دیکھ کر وہ حیران ہوے بغیر نہ رہ سکے کینیا کے دارلخلافے میں کام کاج نمٹانے کے بعد اگلے دن وہ نائجیریا چلے گئے لاگوس ائیر پورٹ سے شہر کی طرف جاتے ہوے انہوں نے درجنوں ایسی عمارتیں دیکھیں جن پر چینی زبان میں لکھے ہوے بورڈ لگے ہوئے تھے ان میں سب سے بڑی بلڈنگ چین چیمبر آف کامرس کی تھی۔اس تین روزہ دورے پر روانہ ہونے سے پہلے انٹونی بلنکن کو معلوم تھا کہ افریقہ میں چین کا اثر رسوخ بڑھ رہا ہے مگر انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ اس خطے میں امریکہ کا رعب و دبدبہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق سیکرٹری بلنکن کو بہت جلد احساس ہو گیا کہ صدر بائیڈن نے انہیں جو کام سونپا ہے وہ انکی توقعات سیکہیں زیادہ مشکل ہے۔ جمعے کے دن ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ امریکہ افریقی ممالک کیساتھ ایسے روابط قائم کرنا چاہتا ہے جو تعمیر و ترقی‘ جمہوری اداروں کے استحکام‘  وبائی امراض کے خاتمے اور ماحولیاتی بحران کے تدارک جیسے اہم مقاصد حاصل کر سکے۔ امریکی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ انکا ملک افریقہ کو دو بڑی طاقتوں کی رسہ کشی میں ایک مہرے کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہتا۔سیکرٹری بلنکن کی گفتگو سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افریقہ نہ صرف بدل چکا ہے بلکہ وہ عالمی طاقتوں کی مسابقت کے کھیل سے بھی آشنا ہے۔افریقہ کے بارے میں نئی امریکی پالیسی کے درو بست وا کرتے ہوے انٹونی بلنکن نے کہا کہ اس خطے کو عالمی طاقتوں نے ہمیشہ ایک جونیئر پارٹنر سمجھا ہے لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ افریقہ کو جیو پالیٹکس میں آلہ کار بنانے کی بجائے اسکا صحیح مقام دیا جائے ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوے انٹونی بلنکن نے کہا کہ نائیجیریا سے امریکہ کے تعلقات چین کے اثر رسوخ کو کم کرنے کیلئے نہیں ہیں اس موقع پر نائجیریا کے وزیر خارجہ Geoffrey Onyeama نے بذلہ سنجی کا مظاہرہ کرتے ہوے کہا کہ کبھی کبھارلڑکی کا خوبصورت ہونا اسلئے فائدہ مند ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ تحفے دینے کی کوشش کرتے ہیں۔انٹونی بلنکن کے نائیجیریا آنے سے ایک ہفتہ پہلے چین کے سفیر نے لاگوس میں صحافیوں کو بتایا کہ انکا ملک گذشتہ تین برسوں میں نائیجیریا میں 7.5 بلین ڈالر انویسٹ کر چکا ہے اور اب وہ اس ملک کے تمام بڑے شہروں میں بینک کھولنا چاہتا ہے تاکہ دونوں ممالک کے اقتصادی نظام باہمی معاونت سے ترقی کر سکیں۔جب سیکرٹری بلنکن کی توجہ اسطرف دلائی گئی تو انہوں نے کہا کہ امریکہ‘  افریقہ میں چین کے بڑھتے ہوے اثر رسوخ سے قطعاّّ فکرمند نہیں ہے۔ اسے اگر تشویش ہے تو اس بات پر کہ چین کے تعمیراتی منصوبے غیر معیاری ہیں اور دوسری بات یہ کہ چین نے چھوٹے ممالک پر بھاری بھرکم قرضوں کا بوجھ لاد دیاہے اسکے مقابلے میں امریکہ کارکنوں کے حقوق‘ کرپشن کے خلاف اقدامات اور ماحولیات کے تحفظ کی کوششوں پر تسلی کرنے کے بعد ترقی پذیر ممالک میں سرمایہ کاری کرتا ہے۔ انٹونی بلنکن نے کہاWhat matters is not just the resources made available but how those resources are actually used  یعنی اصل بات یہ نہیں کہ وسائل مہیا کر دئے جائیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ وسائل کیسے استعمال کئے جاتے ہیں۔سیکرٹری بلنکن کی وضاحتیں‘ صفائیاں اور وعدے وعید اس حقیقت کو نہ چھپا سکے کہ امریکہ کو افریقی ممالک کیساتھ تعلقات استوار کرنے میں شدیدمشکلات کا سامنا ہے امریکہ‘ برطانیہ اور فرانس نے اس خطے کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ چین نے اگر افریقی ممالک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری نہ کی ہوتی تو امریکہ آج بھی انہیں خاطر میں نہ لاتا۔ کینیا اور نائجیریا جیسے ممالک دن رات محنت کر کے اگر ترقی کی دوڑ میں آگے نہ بڑھ گئے ہوتے تو انٹونی بلنکن آج انہیں انکی اہمیت کا احساس نہ دلا رہے ہوتے۔ ایک دنیا جانتی ہے کہ یہ مقابلہ صرف امریکہ اور چین کے اقتصادی مفادات کا نہیں بلکہ جمہوریت کی بقا کا بھی ہے۔گذشتہ ہفتے صدر بائیڈن نے ایک کھرب ڈالر کے انفرا سٹرکچر بل پر دستخط کرنے کے بعدوائٹ ہاؤس میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوے کہا کہ امریکہ میں ہاؤس اور سینٹ کا متفقہ طور پر منظور کیا ہوا یہ بل ثابت کرتا ہے کہ جمہوریت ڈیلیور کر سکتی ہے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ آج جمہوریت کو اس الزام کا سامنا ہے کہ وہ ڈیلیور نہیں کرسکتی۔ جمہوریت کے بارے میں اٹھائے گئے اس سوال کی اصل وجہ چین کی بے مثال ترقی ہے مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ چین کا مطلق ا لعنان نظام ہر ملک کیلئے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ سوڈان میں ایک ماہ پہلے فوج نے وزیر اعظم عبدللہ ہمدوک کو برطرف کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اسکے بعد ملک بھر میں شروع ہونیوالے احتجاج میں پولیس نے درجنوں افراد ہلاک کر دیئے۔ اتوار کو آرمی چیف جنرل عبدل فتح البرہان نے اعلان کیا کہ وزیر اعظم ہمدوک کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت قائم کی جائیگی جو عنقریب انتخابات کرا دیگی اپوزیشن جماعتوں نے اس ڈیل کو مسترد کرتے ہوے کہا کہ فوج باون برس تک سوڈان پر حکومت کرنے کے بعد اب بھی اقتدار چھوڑنا نہیں چاہتی۔کینیا اور نائیجیریا چین کی مدد سے غربت اور محرومیوں سے نجات کا سفر شروع کر چکے ہیں مگر سوڈان‘ صومالیہ‘ ایتھوپیا اور کئی دوسرے افریقی ممالک ابھی تک ماضی کی تاریکیوں میں بھٹک رہے ہیں انکی بدحالی کہہ رہی ہے کہ جو اپنی مدد آپ نہ کرے اسے امریکہ یا چین ترقی کی منزل تک نہیں پہنچا سکتے۔