انداز واطوار

جب ہم سمن آباد میں رہتے تھے یہ لاہور میں ایک جگہ ہے وہ ان دنوں نیا نیا آباد ہورہا تھا اچھا پوش علاقہ تھا وہاں ایک بی بی بہت خوبصورت‘ ماڈرن قسم کی بیوہ عورت نوعمر وہاں آکر رہنے لگی اسکے دو بچے بھی تھے ہم‘جو سمن آباد کے ’نیک‘آدمی تھے ہم نے دیکھا کہ ایک عجیب و غریب کردار آکر ہمارے درمیان آباد ہوگیا ہے اور اسکا انداز زیست ہم سے ملتا جلتا نہیں ہے ایک تو وہ انتہائی اعلیٰ درجے کے خوبصورت کپڑے پہنتی تھی‘پھر اسکی یہ خرابی تھی کہ وہ بڑی خوبصورت تھی تیسری اس میں خرابی یہ تھی کہ اسکے گھر کے آگے سے گزرو تو خوشبو کی لپٹیں آتی تھی اسکے جو دو بچے تھے‘ وہ گھر سے باہر بھاگے پھرتے تھے اور کھانا گھر پر نہیں کھاتے تھے لوگوں کے گھروں میں چلے جاتے تھے اور جن گھروں میں جاتے‘ وہیں سے کھاپی لیتے تھے‘ یعنی گھر کی زندگی سے ان بچوں کی زندگی کچھ کٹ آف تھی اس خاتون کو کچھ عجیب وغریب قسم کے مرد بھی ملنے آتے تھے گھر کی گاڑی کا نمبر تو روز دیکھ دیکھ کر آپ جان جاتے ہیں لیکن اس کے گھر آئے روز مختلف نمبروں والی گاڑیاں آتی تھیں ظاہر ہے اس صورتحال میں ہم جیسے بھلے آدمی اس سے کوئی اچھا نتیجہ نہیں اخذ کرسکتے اسکے بارے میں ہمارا ایسا ہی رویہ تھا جیسا آپکو جب میں یہ کہانی سنارہا ہوں تو آپکے دل میں لامحالہ اس جیسے ہی خیالات آتے ہونگے‘میں کھڑکی سے اسے جب بھی د یکھتا‘وہ جاسوسی ناول پڑھتی رہتی تھی کوئی کام نہیں کرتی تھی اسے کسی چولہے چوکے کا کوئی خیال نہ تھا بچوں کو بھی کئی بار باہر نکل جانے کو کہتی تھی‘ایک روز وہ سبزی کی دکان پر گرگئی لوگوں نے اسکے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے تو اسے ہوش آیا اور وہ گھر گئی‘تین دن کے بعد وہ فوت ہوگئی‘حالانکہ اچھی صحت مند دکھائی پڑتی تھی جو بندے اسکے ہاں آتے تھے انہوں نے ہی اس کا کفن دفن کا سامان کیا بعد میں پتہ چلا کہ انکے ہاں آنیوالا ایک بندہ انکا فیملی ڈاکٹر تھا اس عورت کو ایک ایسی بیماری تھی جسکا کوئی علاج نہیں تھا اس کو ایسی خوفناک صورت لاحق تھی کہ اسکے بدن سے بدبو بھی آتی رہتی تھی‘اسے خوشبو کیلئے سپرے کرنا پڑتا تھا‘تاکہ کسی قریب کھڑے کو تکلیف نہ ہو‘ دوسرا اس کے گھر آنیوالا اس کا وکیل تھا‘جو اسکے حقوق کی نگہبانی کرتا تھا تیسرا اسکے خاوند کا چھوٹا بھائی تھا‘ جو اپنی بھابی کو ملنے آتا تھا ہم نے ایسے ہی اسکے بارے میں طرح طرح کے اندازے لگالیے اور نتائج اخذ کرلئے اور اس نیک پاکدامن عورت کو جب دورہ پڑتا تھا وہ بچوں کو دھکے مار کر باہر نکال دیتی تھی اور تڑپنے کیلئے وہ اپنے دروازے بند کرلیتی تھی۔آپ کو یاد ہو گا جب شارجہ میں میانداد نے چھکالگایا تھا‘میں شادمان کے علاقے میں جا رہا تھا کہ میری گاڑی میں خرابی پیدا ہو گئی‘میں نے نیچے اتر کر دیکھا تو اس کو ٹھیک کرنا میرے بس کی بات نہیں تھی‘ایک خاتون گھر سے باہر آئیں‘ انہوں نے آ کر دیکھا اور پھر کہا کہ یہ آپ سے ٹھیک نہیں ہوگی‘ میں نے اس سے کہا کہ میں کہیں جلدی جانا چاہتا ہوں‘اس نے کہا کہ آپ گاڑی کو یہاں چھوڑ دیں‘ میرا بیٹا انجینئر ہے وہ اسے دیکھ لے گا‘ میں بلاتی ہوں اس لڑکے نے آکر کہا کہ انکل آپ جا کر اندر بیٹھیں میں دیکھتا ہوں اور وہ کام کرنے لگا‘میں انکے گھر میں جا کر بیٹھ گیا‘ وہاں ٹی وی لگا ہوا تھا اس دوران میں میانداد آیا اس نے چھکا لگایا اور پاکستان جیت گیا اس وقت پوری قوم ٹی وی اور ریڈیو سیٹوں سے چمٹی ہوئی تھی اس لڑکے کی ماں نے مجھے آ کر کہا کہ گاڑی ٹھیک ہو گئی‘میں نے اس لڑکے سے آ کر کہا کہ یار تم نے میچ نہیں دیکھا۔وہ کہنے لگاکوئی بات نہیں۔ آپ نے دیکھ لیا تو میں نے دیکھ لیا۔ آپکی دقت ختم ہو گئی خواتین و حضرات! اس نے یہ چھوٹی سی بات کہہ کر مجھے خرید لیا۔ بظاہر یہ ایک چھوٹی سی بات ہے لیکن اس نے مجھے ایسی چیز عطا کی جس کا میں آج تک دینے دار ہوں۔ہم اپنی والدہ کو ”پھر نتو“ کہتے تھے۔ وہ آزاد منش خاتون تھیں اور عموماً اپنے کمرے میں نہیں رہتی تھی بس ادھر ادھر پھرتی رہتی تھیں‘اتنی پڑھی لکھی بھی نہیں تھیں‘ جب بھی دیکھیں کمرے کا چکرلگا کے باورچی خانے میں پہنچتی ہوتیں‘انہیں جہاں بھی چھوڑ کر آتے تھوڑی دیر کے بعد وہ کچن میں ”کڑھم“ کرکے موجود ہوتیں۔ ایک بار دوپہر کے وقت وہ باورچی خانے میں کھڑی تھیں اور سب سوئے ہوئے تھے‘میں نے پوچھا جی کیا کر رہی ہیں تو وہ کہنے لگیں کہ بندر والا مداری آیا تھا وہ بھوکا تھا اس کیلئے پکوڑے تل رہی ہوں۔ میری اماں کا سارا سینٹر باورچی خانہ تھا وہ بھی کہتیں کہ میری زندگی کا مرکز ہی یہ ہے اور مجھے لوگوں کوکچھ عطا کرکے خوشی ہوتی ہے۔اس زمانے میں شاید ساری عورتیں اس نظریے کی قائل تھیں۔اگر آپ اپنی زندگی کو کبھی غور سے دیکھیں اور چھوٹی چمٹی کے ساتھ زندگی کے واقعات چنتے رہیں تو آپ کو بے شمار چیزیں ایسی نظر آئیں گی جو ایسے ہی آپ کی نگاہ سے اوجھل ہو گئی ہیں لیکن وہ بڑی قیمتی چیزیں ہیں۔)اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)