سفرناموں میں انداز بیان کی خوبصورتی پڑھنے والوں کو معلومات کیساتھ دلچسپی کا سامان بھی فراہم کرتی ہے‘ معروف براڈکاسٹر آغا ناصر برطانیہ میں قیام کے حوالے سے اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ لندن میں دیکھنے کی بہت سے چیزیں تھیں عجائب گھر‘آرٹ گیلریاں‘ باشاہوں کے محلات‘ باغات‘ ہرجگہ سیاحوں کا اس قدر ہجوم ہوتا تھا کہ داخلے کیلئے طویل انتظار کرنا پڑتا تھا ان دنوں اکثر جگہوں کیلئے تو کوئی ٹکٹ ہوتا ہی نہیں تھا میں نے اتوار کا دن اسی کام کیلئے مخصوص کیا ہوا تھا نعیم خان میرے ساتھ ہوتا یوں رفتہ رفتہ میں نے لندن شہر کے سارے قابل ذکر مقامات کی سیر کرلی اتوار کی ایک سہ پہر میں نے نعیم سے کہا کہ اتنا عرصہ مجھے لندن آئے ہوئے ہوگیامگر ابھی تک ہائیڈپارک کے درشن نہیں ہوئے وہ بولا ابھی چلتے ہیں اور ہم انڈر گراؤنڈ ٹرین سے فی الفور ہائیڈ پارک کے سٹیشن پر جا اترے کیا مزے کی جگہ ہے وہاں شخص جو چاہے کہہ سکتا ہے کوئی پابندی نہیں ہے بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے افریقی‘ایشیائی‘ جاپان‘چین اور عرب دنیا کے لوگ سب اپنے دل کی ساری حسرتیں نکال لیتے ہیں میں جب کبھی فری ہوتا چلا جاتا ایک دن مجھے نظام شیخ مل گیا وہ ریڈیو پاکستان میں کچھ عرصہ کام کررہا تھا سندھ کے ایک متمول خاندان سے تعلق تھا اور بہتر مستقبل کی کھوج میں انگلستان آیا تھا لندن میں قیام کے دوران ہم اکثر ایک دوسرے سے ملتے رہے نظام سے میری خاصی بے تکلفی تھی اور ہمارے پاس بات کرنے کے لئے موضوعات کی کوئی کمی نہیں تھی۔ہائیڈ پارک کا ’آزادی تقریر‘ کے حوالے سے ساری دنیا میں بڑا شہرہ تھا خاص طور پر ان ملکوں میں جوتاج برطانیہ کی غلامی میں رہ چکے ہیں اس وسیع وعریض پارک میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مقررین اپنے اپنے سامعین کی ٹولیوں کے سامنے تقریر کرتے دکھائی دیتے ہیں ہر ملک اور ہر نسل کا آدمی وہاں موجود ہوتا ہے اور وہ سب کچھ جو کہنے کی اسے اپنے ملک میں اجازت نہیں اس پارک میں برملا کہتا جب ہم ہائیڈپارک میں داخل ہوئے تو بڑی رونق تھی موسم بھی سہانا تھا ہر جانب لوگوں کا ہجوم تھا ہم دونوں ایک سیاہ فام افریقی مقرر کے حلقے میں جاکر کھڑے ہوگئے وہ بڑے جذباتی انداز میں نمیبیا اور سویٹو میں سفید فام اقوام کے ظلم وستم کیخلاف شعلہ افشائی کررہا تھا ہم بھی ہجوم میں کھڑے اس کی تقریر سننے لگے ذرا دیر بعد پیچھے سے آوازآئی Mr.Speaker,I Can not hear Youہمارے قریب کھڑے ہوئے ایک شخص نے پلٹ کر دیکھا اور فقرہ چست کیا You are bloody lucky‘لوگ قہقہے لگانے لگے ہم اس ٹکڑی کو چھوڑ کر آگے بڑھ گئے ایک کونے میں درخت کے نیچے ایک فلپنوسٹول پر کھڑا اکیلا تقریر کررہا تھا میں نے حیرت سے اسے دیکھا اور نعیم سے کہا‘اس غریب کے پاس سامعین ہی نہیں ہیں پھر یہ تقریر کیوں کررہا ہے نعیم نے ہنس کر جواب دیا اس کی مرضی اسی سے پوچھ لیں میں اسکے قریب گیا اورپوچھا آپ تقریر کئے چلے جارہے ہیں مگر سننے والا کوئی بھی نہیں اس شخص نے فوراً جواب دیا یہ میرا مسئلہ نہیں ہے تقریر کرنا میرا حق ہے‘سننا یا نہ سننا آپ کی مرضی ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات