دوستی میں حساب نہیں 

ابو اسحاق ابراہیم حج کے لئے جارہے تھے ایک شخص نے کہا حضرت میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا‘ ابو اسحاق نے کہا ضرور چلو! وہ شخص ایک غریب آدمی تھا بہت غریب جب دونوں سفر پر نکلنے لگے تو حضرت ابو اسحاق نے فرمایا دیکھو! بہتر ہے کہ ہم دو میں سے ایک امیر بن جائے‘ اس شخص نے کہا بہت اچھی بات ہے میں آپ کو اپنا بڑا اور اپنا امیر مان لیتا ہوں! ابو اسحاق نے فرمایا یہ بات طے ہوگئی تو یاد رکھو کہ سفر میں سب کام امیر کے حکم کے مطابق ہوں گے! اس نے کہا کہ درست۔۔ ابو اسحاق امیر اور وہ شخص تابع بن کر سفر کرنے لگے پہلی منزل آئی‘ سفر روک دیا گیا‘ ابو اسحاق نے کہا تم بیٹھو میں ابھی آیا‘ وہ شخص بیٹھ گیا‘ تھوڑی دیر بعد ابو اسحاق آئے تو ان کے سر پر گھڑا تھا وہ دور سے پانی لے آئے تھے اس شخص نے کہا ارے! یہ آپ نے کیا کیا آپ تو امیر ہیں‘ میں آپ کا مطیع اور فرمانبردار ہوں مجھے حکم دیجئے کہ کام میں کروں۔ابو اسحاق نے فرمایا کہ تم مطیع ہو حکم کی تعمیل کرو اور اپنی جگہ بیٹھے رہو! سردی کا موسم تھا‘ دانت سے دانت بج رہے تھے‘ گرم پانی کی ضرورت تھی کہ وضو کیاجائے‘ ابو اسحاق اٹھے‘ جنگل گئے‘ لکڑیاں چن کر لے آئے‘ پانی گرم کیا‘ خود بھی وضو کیا اس شخص کو بھی وضو کے لئے پانی دیا‘ وہ شخص بار بار کہتا رہا حضور! یہ آپ کیا کرتے ہیں یہ تو میرے کرنے کے کام ہیں‘ آپ بیٹھے رہیں میں انہیں پورا کروں گا‘ لیکن یہاں سے ایک ہی جواب ملتا‘ چپ چاپ بیٹھے رہو! میرا یہی حکم ہے۔رات ختم ہوگئی سفر شروع ہوا تو خدا کا کرنا کیا ہوا کہ بارش شروع ہوگئی اس شخص کے پاس تھا کیا ایک گدڑی ایک کمبل! ابو اسحاق نے اپنا لبادہ اتارا اور اسے پھیلا کردونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا اس طرح کہ اس پر آڑ رہے اور بارش سے وہ بھیگنے نہ پائے خود بھیگتے رہے اس کی ذرا پروا نہ تھی‘ اس شخص کا حال یہ کہ شرمندگی سے آنکھ نہ اٹھا سکتا تھا‘ کچھ بولنا چاہتا تو یہ اسے روک دیتے۔ایک دن اس شخص نے کہا آج میں امیر بنوں گا آپ میرے مطیع اور فرمانبردار بن جائیں ابو اسحاق نے کہا منظور! منزل آئی‘ قافلے نے پڑاؤ ڈالا‘ ابو اسحاق پھر کام پر نکل گئے اس شخص نے انہیں پکڑا‘ بولا یہ آپ کیا کرتے ہیں آج میں امیر ہوں‘ جواب دیا بے شک تم امیر ہو‘ اس نے کہا کہ پھر آپ میرے حکم کے خلاف کیوں کرتے ہیں‘ انہوں نے جواب دیا میں تو کوئی نافرمانی نہیں کررہا ہوں‘ نافرمانی تو یہ ہوگی کہ میں امیر کو اپنی خدمت کے لئے کہتا‘ میں تو مطیع ہوں یہ کام تو ہیں ہی میرے۔اس شخص کا کہنا ہے مکہ معظمہ تک وہ یہی کرتے رہے‘ امیر ہوتے تو خود ہی میری خدمت کرتے تابع ہوتے تو بھی خود ہی میری خدمت کرتے‘ آخر میں ان کے اس حسن سلوک سے اتنا شرمندہ ہوا کہ مکہ پہنچ کر بلا اطلاع ان کے پاس سے بھاگ نکلا‘ اتفاقاً منیٰ میں انہوں نے مجھے دیکھ لیا میں بھاگنے کی فکر میں تھا کہ میرا ہاتھ پکڑ لیا‘ میری شرمندگی کو بھانپ کر ہنسے اور فرمایا عزیزمن! تم کہاں حساب کتاب میں پڑ گئے دوستی اور رفاقت ان باتوں سے بے نیاز ہوتی ہے۔(روشنی سے اقتباس)