واشنگٹن میں جمہوریت کا سمٹ

واشنگٹن میں نو اور دس دسمبر کو ڈیمو کریسی سمٹ منعقد ہو رہا ہے اسمیں 110 ممالک کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے اس ورچوئل سمٹ میں پاکستان کو بھی مدعو کیا گیا ہے یہ بات زیر بحث ہے کہ اس میں شرکت پاکستان  کیلئے فائدہ مند ثابت ہو گی یا نہیں صدر بائیڈن نے ایک سال پہلے اپنی انتخابی مہم کے دوران اعلان کیا تھا کہ وہ منتخب ہو گئے تو جمہوریت کے فوائد اور حاصلات پر ایک عالمی کانفرنس منعقد کریں گے آج سے پہلے ہر امریکی صدر جمہوریت کی تعریف و توصیف تو کرتا رہا ہے مگر کسی نے بھی اسکی خوبیاں گنوانے کیلئے عالمی سمٹ کے انعقاد کو ضروری نہیں سمجھا اس نظام حکومت کی سب سے زیادہ مخالفت سوویت یونین نے کی تھی اس عالمی طاقت کے انہدام کے بعد اب چین کو جمہوریت کیلئے ایک بڑا خطرہ سمجھا جاتاہے چین نے ایک مطلق العنان ملک ہونے کے باوجود جس تیزی سے ترقی کی ہے اس نے ترقی پذیر ممالک کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے وہاں اس سوچ نے جنم لیا ہے کہ جمہوریت کے شورو غوغا سے بچ کر اقتصادی ترقی پر توجہ دی جائے تو زیادہ بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں ڈونلڈ ٹرمپ نے جس غیر ذمہ دارانہ نداز میں حکومت کی اسنے بھی جمہوریت کے بارے میں کئی سوالات کو جنم دیاہے ڈیموکریٹک پارٹی بہت پہلے سمجھ چکی تھی کہ جمہوریت کا بول بالا کئے بغیر امریکہ ایک عالمی طاقت ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتااس سمٹ کی غرض و غائت بیان کرتے ہوے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کہا ہے کہ آج جمہوریت کو جو چیلنج اور مسائل درپیش ہیں انکا جائزہ لینے کیلئے ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جو جمہوری ممالک کے نمائندوں کو اس نظام کے بارے میں اپنی آرا‘  مشورے اور تحفظات بیان کرنے کے مواقع فراہم کر سکے اس کانفرنس کے جو اغراض و مقاصد بیان کئے گئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ جمہوریت کے علاوہ انسانی حقوق کو بھی آج کی دنیا میں ایسے خطرات لاحق ہیں جنکے مقابلے کیلئے تمام جمہوری ممالک کو ایک متفقہ حکمت عملی کی ضرورت ہے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ مختلف ممالک کے لیڈروں کے خیالات سن کر ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ دنیا بھر میں جمہوریت کے فروغ کیلئے کونسے اقدامات ضروری ہیں نیڈ پرائس نے کہا کہ یہ کانفرنس ہمیں موقع فراہم کرے گی کہ ہم کھلے عام اس بات کا تعین کریں کہ جمہوریت کی کمزوریوں کو کیسے دور کیا جا سکتا ہے ترجمان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جمہوریت کو جب تک کرپشن سے پاک نہیں کیا جاتا‘ شفاف نہیں بنایا جاتا اور انسانی حقوق کا محافظ نہیں سمجھا جاتا اسوقت تک اسے مطلق العنان حکومتوں سے خطرات لاحق رہیں گے۔اس کانفرنس کے انعقاد سے پہلے ہی اسے ملک کے اندر اور باہر سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ریپبلیکن پارٹی نے اسے غیر ضروری قرار دیتے ہوے کہا ہے کہ صدر بائیڈن کو پہلے اپنی خارجہ پالیسی کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ اس کانفرنس سے اسلئے کچھ حاصل نہ کر سکے گی کہ اسکی خارجہ پالیسی کی سمت درست نہیں ہے اس سے انکی مراد یہ ہے کہ صدر بائیڈن کو پہلے چین کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح سخت پالیسی اختیار کرنا چاہئے۔ چین اور روس نے اس سمٹ کی مخالفت کرتے ہوے کہا ہے کہ یہ عالمی کمیونٹی کو مزید تقسیم کر کے نت نئے تنازعات کو جنم دیگا آج تک ایسا نہیں ہوا کہ روس اور چین نے ملکر مشترکہ طور پر امریکہ کے خلاف کوئی بیان دیا ہوان دونوں ممالک کے سفارتکاروں نے ملکر واشنگٹن کے جریدے ANI میں ایک آرٹیکل شائع کیا ہے جسمیں لکھا ہے کہ صدر بائیڈن نے اس سمٹ کے ذریعے خود کو اس فیصلے کا اختیار دے دیا ہے کہ کون سا ملک جمہوری ہے اور کونسا نہیں ہے کسے مدعو کیا جائے اور کسے نہیں دونوں ممالک کے سفارتکاروں نے لکھا ہے کہ اس عالمی کانفرنس نے سرد جنگ کی ذہنیت سے جنم لیا ہے اس تحریر میں واشنگٹن کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ جمہوریت کے بارے میں پریشان ہونیکی بجائے اپنے مسائل کی طرف توجہ دے‘انتیس نومبر کے امریکی اخبارات کی ایک خبر کے مطابق بائیڈن انتظامیہ کوشش کر رہی ہے کہ چین کیساتھ اسکی جوہری صلاحیت پر بات چیت کی جائے اس معاملے میں چین کا مؤقف یہ ہے کہ امریکہ اور روس کے پاس چین کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ نیوکلیئر وار ہیڈز ہیں اسلئے چین کیلئے جوہری اسلحے میں تخفیف کا مطالبہ قابل قبول نہیں ہے امریکہ نے اسکا یہ جواب دیا ہے کہ چین نے ہائیپر سانک ہتھیاروں‘ خلائی اسلحے اور سائیبر ہتھیاروں میں اتنی ترقی کر لی ہے کہ کسی حادثاتی جنگ کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتااسلئے دونوں ممالک کے درمیان کسی ایسے معاہدے کی ضرورت ہے جو انہیں مہم جوئی سے باز رکھ سکے اور خطرناک حالات میں ایکدوسرے کے ساتھ مشاورت کا موقع فراہم کر سکے۔ صدر بائیڈن کی خارجہ پالیسی کے مخالفین کا کہنا ہے کہ چین سے نیوکلیئر اسلحے پر بات چیت اور جمہوریت کا سمٹ متضاد مقاصد کے حامل ہیں دونوں پر بیک وقت عملدرآمد نہیں ہو سکتا بائیڈن انتظامیہ نے کہا ہے کہ جمہوریت پر مکالمہ سب کے سامنے ہوگا اسکا مقصد کسی کو اشتعال دلانا نہیں ہے اسلئے چین سے جوہری اسلحے کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے بات چیت کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔اس سمٹ میں پاکستان کی شرکت کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ چین اسے نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے گا یہ عالمی کانفرنس امریکہ پاکستان تعلقات میں ایک مثبت پیش رفت ہے اسلئے پاکستان اسمیں شرکت کریگا چین کی ناراضگی کا احتمال اسلئے نہیں ہے کہ بیجنگ چاہتا ہے کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات میں کشیدگی نہ آئے۔