کتب خانوں کا دور

ہم حیدرآباد کی کچی اور تنگ  گلیوں سے گزرتے ہوئے اس علاقے میں جا پہنچے جہاں ایک پرانا قبرستان تھا ہر طرف بہت سے چھوٹے بڑے مقبرے تھے کچھ ڈھے گئے تھے اور کچھ مقبروں کی پیٹھ قدامت کے بوجھ تلے جھک رہی تھی بالآخر ہم ایک چھوٹے سے سالم اور ثابت مقبرے میں داخل ہوئے درمیان میں کسی دکنی شہزادی کی قبر تھی جس پر سبز ریشمی چادر پڑی تھی اور اطراف میں دیواروں کے ساتھ ساتھ پرانی کتابیں چنی تھیں یہ سید محمد عبدالرزاق عرشی صاحب کا کتب خانہ تھا مقبرہ بھی قدیم ہے کتابیں بھی پرانی ہیں اور خود عرشی صاحب بھی ضعیف ہیں ان سے گفتگو ہوتی تو عرشی صاحب کی ذات گرامی اور شخصیت اس کتب خانے کی سب سے دلچسپ کتاب ثابت ہوئی عبدلرزاق عرشی صاحب کو کتابوں سے والہانہ عشق تھا چنانچہ عمر بھر کتابیں جمع کرتے رہے پڑھتے رہے لکھتے رہے اور کتابوں کی تلاش میں سرگرداں لوگوں کی مدد کرتے رہے انہوں نے دکن کی سرزمین پر تقریبا تین چوتھائی صدی گزاری ہے انہوں نے زمانے کے کتنے ہی سیلاب آتے اور جاتے دیکھے ہیں گھر بنتے اور اجڑتے دیکھے ہیں کتب خانوں کی الماریوں میں سجتی ہوئی کتابیں دیکھی ہیں پھر ان ہی کتابوں کو بازاروں میں اونے پونے فروخت ہوتے دیکھا ہے عرشی صاحب کتابوں اور کتب خانوں کی داستانیں سنا رہے تھے میں شہزادی کی قبر پر کہنی ٹیکے بیٹھے تھا اور بڑے انہماک سے ان کی باتیں سن رہا تھا بتا رہے تھے کہ دکن میں کسی زمانے میں کتابوں کے ذخیروں کی کیا آن بان تھی ہر گھر میں ذخیرہ ہوتا تھا حقیقت یہ ہے کہ جس قدر امراء اور روسا ہوتے تھے چاہے وہ علم کی صلاحیت ہوں یا نہ رکھتے ہوں لیکن بحیثیت امیر ہونے کے ان کیلئے تین چیزیں لازمی تھیں ایک سلاخ خانہ دوسرا کتب خانہ اور تیسرا جواہرخانہ‘ کہنے لگے کہ کتنے ہی امیر اور نواب تو ایسے تھے کہ ان کے منشی کتابیں پڑھ کر انہیں بتا دیا کرتے تھے کہ ان میں کیا لکھا ہے اسکے بعد یہ امراء اور روسا محفلوں اور مجلسوں میں بیٹھ کر ان کتابوں کی باتیں کچھ یوں کرتے تھے جیسے خود ان کے گھر میں تصنیف کی گئی ہوں مگر خیر! وہ زمانہ بھی گیا اور وہ طور طریقے بھی رخصت ہوئے میں نے عبدالرزاق عرشی صاحب سے پوچھا کہ اب اس نئے دور میں حیدرآباد میں کتنے کتب خانے ہیں؟ انہوں نے کہا حیدرآباد میں بیسیوں کتب خانے ہیں اور سب سے بڑا کتب خانہ تو سٹیٹ لائبریری ہے اس کو نواب عماد الملک‘ محسن الملک اور چراغ علی‘ یہ لوگ مل کر غالباً تیرہ سوہجری میں قائم  کئے اس کی نظامت کیلئے مولانا علی حیدر صاحب طباطبائی کو وہاں مہتمم کی خدمت پر فائز کیاگیا عماد الملک محکمہ تعلیم سے خریدی کتب کیلئے پانچ ہزار روپے کی گرانٹ اس زمانے میں دیا کرتے تھے رفتہ رفتہ جب ہمارا دور آیا اور کتب خانہ آصفیہ جب نئے پل کے پاس بنا تو تو نواب بہادر یار جنگ نے‘ چونکہ صدر کتب خانہ تھے اعلیٰ حضرت سے کہہ کر75 ہزار روپے تک اس کا گرانٹ منظور کراتے جس میں پچاس ہزار روپے صرف اردو‘ عربی‘ فارسی کتب کیلئے اور 25 ہزار روپے  انگریزی کتب کیلئے مقرر کئے گئے تھے کتابوں کی وہ خریداری برابر جاری رہی جس قدر بھی حیدرآباد کے نادر کتب خانے تھے وہ نواب بہادر یارجنگ کے توسط سے کتب خانہ آصفیہ کیلئے خریدے جاتے تھے۔ تو یہ شان تھی کتب خانہ آصفیہ کی1891ء میں یہ آصف جاہی دور کا یادگار میناربن کر ابھرا حکومت آصفیہ کا  عوامی کتب خانہ قرارپایا نواب عماد الملک‘ مولوی چراغ علی اور مولوی محب حسین جیسے ذی علم حضرات کے ذاتی کتب خانے اٹھ کر اس عظیم الشان لائبریری میں آگئے دیکھتے ہی دیکھتے اس میں دو لاکھ کتابیں جمع ہوگئیں جن میں سولہ ہزار سے زیادہ قلمی  نسخے تھے اور قلمی نسخے بھی ایسے کہ ان میں قطب شاہی‘ عادل شاہی اور آصف جاہی دور کے ادیبوں اور شاعروں کی تصانیف بھری پڑی تھیں۔(رضا علی عابدی کی کتاب”کتب خانہ“ سے اقتباس)