کتابوں کے کیڑے

رضا علی عابدی اپنی کتاب ”کتب خانہ“ میں حیدر آباد دکن کے مشہورکتب خانہ آصفیہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ عربی  فار سی اور اردو کا کوئی موضوع ایسا نہ تھا جس کی کتاب کتب خانہ آصفیہ کی الماریوں میں موتی کی طرح جھلملاتی نہ ہوں۔ آج بھی کتب خانے کی شاندار عمارت کے گنبد اور محرابیں سامنے بہتے ہوئے دریا میں اپنا عکس دیکھا کرتے تھے۔ وہ نہیں بدلے البتہ ان کا نام بدلا گیا۔میں وہاں گیا تو ذہن کو ایک دھکا سا لگا، وہ یقینا بہت بڑا کتب خانہ تھا مگر نئے حالات نے اسے ویسا نہ رکھا جیسا میں نے سوچا تھا، میں کتب خانے کے عملے سے کہا کہ کچھ کتابیں لاکر دکھا دیجئے، انہوں نے کہا کہ کتابیں باہر لانے کی ضرورت نہیں، نئے رواجوں کے مطابق آپ خود کتابوں کی الماری کے پاس جا سکتے ہیں  اور جو کتاب چاہیں نکال کر دیکھ سکتے ہیں۔ اور پھر میری درخواست پر انہوں نے مجھے اس بڑے کمرے میں پہنچادیا جہاں لوہے کی قدیم الماریوں میں اردو، فارسی اور عربی کی کتابیں چنی ہوئی تھیں، کہیں دور ریلوے سٹیشنوں کے غسلخانے جیسا مدھم سا بلب ٹمٹما رہا تھا اور کتابیں کچھ اس طرح سو رہی تھیں کہ میں ان کے سرہانے بولا تو اس بات کا بہت خیال رکھا کہ آہستہ بولوں،میں نے کتب خانے کے  ایک نگران جناب عبدالقادر صاحب سے پوچھا کہ یہ کسمپرسی کا عالم کیوں ہے،ایک یتیمی سی کیوں نظر آتی ہے تو کہنے لگے۔ یہاں فارسی، عربی اور اردو کی بہت پرانی اور نایاب کتابیں موجود ہیں، بعض تو دو سو سال پرانی ہیں، لیکن عربی فارسی کا کوئی قابل آدمی نہیں ہے کہ اس شعبے کی نگہداشت کرے، حکومت چاہتی ہے کہ کوئی تقرر ہو لیکن عربی جاننے والے لوگ آج کل عرب ملکوں کو آسانی سے چلے جارہے ہیں، جہاں زیادہ تنخواہیں ملتی ہیں، یہاں سرکاری تنخواہیں کم ہیں،اس واسطے اس کا صحیح انتظام نہیں ہوسکا۔ یہ تو ہوا چھپی ہوئی کتابوں کا احوال،وہ جو ہاتھ سے لکھی ہوئی ہزاروں کتابیں تھیں جن کی وجہ سے کتب خانہ آصفیہ مشہور تھا وہ کیا ہوئیں، پتہ چلا کہ وہ سٹیٹ آرکائیوز میں منتقل کردی گئی ہیں۔ مگر کیوں؟کسی نے کہا اچھا ہی ہوا، وہ بہت ہی نادر اور بیش قیمت مخطوطے تھے یہاں ان کی حفاظت اور دیکھ بھال ممکن نہ تھی۔ تب پتہ چلا کہ کتب خانہ آصفیہ  عرف سٹیٹ سنٹرل لائبریری کی کتابوں پر سب سے بڑا ظلم دیمک، کیڑوں، خاک دھول، اندھیرے اور سلین نے نہیں بلکہ ہم نے آپ نے اور پڑھنے والوں نے، محققوں نے اور طالب علموں نے کیا، غضب یہ ہوا کہ الماریاں پڑھنے والوں کیلئے کھول دی گئیں، قارئین کو کتابوں تک رسائی کی اجازت دیدی گئی۔پہلے تو لوگ کاغذ قلم لے کر آتے تھے او رنوٹس بنا کر گھر لے جاتے تھے، اب وہ بلیڈ اور قینچیاں لے کر آنے لگے، اور پرانی پرانی نایاب کتابوں کے تمام مطلوبہ صفحے کاٹ کاٹ کر لے جانے لگے۔ بعض لوگ اپنے ظرف کے مطابق مطلوبہ صفحے نہیں پوری پوری کتابیں لے گئے۔