ڈاک کی تقسیم

اس وقت میری عمر کچھ زیادہ بڑی نہیں تھی کوئی چار سال  ہوگی ابھی سکول داخل نہیں ہوا تھا لیکن مجھ میں ہوش کے آثار اپنے دوسرے بہن بھائیوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ تھے ہمارا گاؤں اچھا خاصا بڑا تھا اس کا بازار بھی بڑا تھا اور میرا خیال ہے اس کو حق پہنچتا تھا کہ اس کی طرف آنے والی سڑک پکی اور سرمئی رنگ کی ہوتی لیکن ایسا نہیں تھا اس سولنگ والی سڑک پر ایک بس ہمارے گاؤں آیا کرتی تھی ہم اس بس کو لاری کہتے تھے لاری کو آپ پرانے زمانے کی شور مچاتی ہوئی بس کہہ سکتے ہیں اس لاری کے ڈرائیور کو یہ خاص حکم تھا کہ اس کی سپیڈ تیز نہیں کرنی اگر پچیس میل فی گھنٹہ  سے اس کی رفتار تیز ہوجاتی تو چالان کردیا جاتا تھا اور سرکاری ملیشیاء اس ڈرائیورکو خارج کردیتی تھی اس طرح وہ پرانی سی لاری مسافروں سے لدی پھدی روتی پٹتی‘گھڑ گھڑ کرتی آتی تھی صبح دس بجے کے قریب گیڈر بار‘ ڈاڈا کالونی سے چلتی تھی کیونکہ وہاں ایک بڑا کارخانہ تھا اور وہاں سے ایک ڈاکیا ڈاک کا تھیلالے کر ہمارے گاؤں اس لاری سے آیا کرتا تھا وہ لاری مسافر اتار کر ہمارے گاؤں سے آگے چلی جاتی تھی اور پھر وہ شام کو لوٹتی تھی تو ہمارا اڈا کیا یا ہر کارہ اس میں بیٹھ کر واپس چلا جاتا تھا۔جب ہمارے گاؤں وہ ڈاکیا ڈاک لے کر آتا تو اس کے کندھے پر ایک تو تھیلا لٹکا ہوا ہوتا تھا خاکی وردی اس نے پہنی ہوتی اور ایک چمڑے کا بیلٹ اس نے سینے سے کمر کی طرف باندھا ہوتا تھا۔وہ سلطان چٹھی رسان کو دیکھ کر نظم پڑھتا اور سلطان اسے سلام کرتا ہوا اس کی دکان میں آجاتا اس دکان کے سامنے ایک سبزی فروش کا چبوترہ تھا اس چبوترے پر سلطان چٹھی رساں اپنا وہ خوبصورت سا تھیلا رکھتا اس میں سے خطوط کے دو بڑے بڑے پیکٹ نکالتا اور انہیں رسی سے الگ الگ باندھ دیتا جبکہ اپنا ڈاک کا بڑا تھیلا سبزی فروش کے پاس رکھ دیتا خواتین وحضرات! جب وہ ڈاکیا وہاں سے چلنے لگتا تو دوکتے’ڈبو‘ اور کالو‘ اس کے پاس آجاتے ڈبو کی کمر پر ایک چٹاخ کا نشان تھا جبکہ کالو کالے رنگ کا تھا وہ دونوں آوارہ کتے تھے لیکن انہیں جانے کیسے پتہ چل جاتا کہ سلطان چٹھی رساں لاری سے اتر چکا ہے اور وہ وہاں پہنچ جاتے ڈبو ڈاکیے کے دائیں جانب جبکہ کالو اس کے بائیں آکر بیٹھ جاتا۔وہ ڈاکیا ان دو پیکٹوں میں سے ایک ڈبو کے منہ میں دے دیتا تو دوسرا پیکٹ کالو کو دے دیتا وہ اپنے پیکٹ اٹھائے چل پڑتے جبکہ سلطان چٹھی رساں ان دونوں کے درمیان میں چلتا دائیں ہاتھ کی جتنی بھی آبادی تھی اس کی چٹھیاں پہلے تقسیم ہوتیں اور ہر گھر پرکھڑے ہوکر ڈاکیا کالو کے منہ سے پیکٹ لیتااور پھر اسے باندھ کر کالو کو دے دیتا جب آخر تک پہنچ جاتے پھر واپسی پر ڈبو کے پیکٹ کی باری ہوتی اور ڈبو بھی احسن اندازمیں اپنی ڈیوٹی دیتا۔دنیا میں بڑی پناہ گاہیں ہیں‘ کچھ لوگ جنگلوں کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں‘کچھ پہاڑوں اور کچھ لق ودق صحراؤں میں پناہ لیتے ہیں‘ آپ کو معلوم ہو گا کہ افریقہ کے جنگل بڑے مشہور ہیں‘ وہ اس قدر پھیلے ہوئے ہیں کہ اگر انسان ان میں راستہ بھٹک جائے تو‘ راستہ تلاش کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بڑے نامی گرامی چور ڈاکو اور جرائم کی دنیا سے تعلق رکھنے والے ان جنگلوں اور بیابانوں کو پناہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔خواتین و حضرات! پناہ گاہ سے مراد ایسی جگہ یا مقام ہوتا ہے جس میں کوئی انسان‘ جانور یاکوئی ذی روح خود کو محفوظ خیال کرے‘ آپ نے دیکھا ہو گاکہ جب ہم کسی سانپ وغیرہ کے پیچھے پڑ جائیں تو وہ کسی نہ کسی بل میں سردے کراسے بطور پناہ گاہ استعمال کرتا ہے۔ پناہ گاہ کی انسانی زندگی میں بڑی اہمیت ہوتی ہے لیکن میں بڑھاپے تک پہنچنے کے بعد جس نتیجہ پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ ماں کی آغوش سے بڑی دنیا میں کوئی پناہ گاہ نہیں ہے اوریقینانہ بن پائے گی۔ ماں کی بانہوں کا حصار ہمیں کسی بڑے مضبوط پہاڑ سے کم نہیں لگتا‘ ایک چھوٹا بچہ جب رات کو سوتے ہوئے ڈر جاتا ہے اور جب اس کی ماں اسے محبت سے سینے سے لگاتی ہے تو وہ دنیاو مافیہا سے بے خبر ہو کر سکون سے اور ماں کے سینے سے چمٹ کر سو جاتاہے‘آپ نے نیشنل جیوگرافک چینل پر کینگر و کے بچے کو کسی انجانے ڈر سے بھاگ کر اپنی ماں کی مخصوص تھیلی‘ جو قدرت کا ایک عظیم شاہکار ہے اس میں دبکتے ہوئے دیکھا ہو گا وہ نظارہ بڑا ہی قابل دید ہوتا ہے بلی جب اپنے معصوم سے ان کھلی آنکھوں والے بچے کو اپنی باچھوں میں اٹھا کر لے جا رہی ہوتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ مامتا کیا ہوتی ہے۔ اس نے اپنے بچے کو اپنے منہ میں اسے گردن سے دبوچا ہوتا ہے لیکن وہ بچہ کوئی پریشانی محسوس نہیں کر رہا ہوتا بلکہ Comfort Feel کر رہا ہوتا ہے۔ ماں کی پناہ گاہ کی تعریف کیلئے زبان ان لفظوں کی محتاج ہے جو اس کی عکاسی کر پائیں لیکن یہ ممکن ہے ہی نہیں‘ میں بھی ان خوش نصیب انسانوں میں سے ہوں جسے ماں کی آغوش اور پناہ گاہ نصیب ہوئی۔(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)