اولین ترجیح

رضا علی عابدی اپنی کتاب ”کتب خانہ“ میں لکھتے ہیں کہ ہندوستان کے برعکس پاکستان میں اردو‘ فارسی‘ سندھی‘ پشتو‘ بلوچی‘ سرائیکی اور کشمیری وغیرہ کی قدیم کتابوں کو پڑھنے اور سمجھنے کا مسئلہ اتنا سنگین نہیں پاکستان میں زیادہ بڑا مسئلہ ان کتابوں کو بچانے کا ہے مختلف گھرانوں میں نجانے کیسے کیسے نوادر موجود ہیں مگر کوئی دن جاتا ہے کہ وہ ختم ہو جائینگے اور مستقبل کا مورخ اپنی بے بسی اور ہماری بے حسی پر آنسو بہایا کریگا اس بارے میں جناب مشفق خواجہ نے پتے کی بات کہی‘ ہمارے ہاں کوئی قانون ایسا نہیں بنا کہ ان نوادر کی حفاظت کی جائے دنیا کے تمام مہذب ملکوں میں حکومتیں یہ ذاتی ذخیرے دو طرح سے حاصل کرتی ہیں ایک تو یہ کہ انہیں ان کا معاضہ دیا جاتا ہے اور دوسرے یہ کہ ان لوگوں میں یہ احساس پیدا کیا جاتا ہے کہ یہ چیزیں آپ کی یادگار کے طورپر طویل عرصے تک محفوظ رہیں گی آپ کانام انکے ساتھ وابستہ رہے گا تو لوگ ان دو وجوہ سے اپنے ذخیرہ کو الگ کر دیتے ہیں مگر ہمارے ہاں محظوطات کی خریداری کے سلسلے میں کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہے جتنا بھی کام ہوا ہے ایک شخص کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے اور وہ تھے مرحوم ممتاز حسن وہ مرگئے تو یہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا ہے‘ مشفق خواجہ تحقیق کے آدمی ہیں اور کتابوں کو جتنے قریب سے وہ دیکھتے ہیں اور کتابوں کی حالت زار پر جتنی تشویش انہیں ہوگی عام لوگوں کو نہیں ہوسکتی  ہم نے مشفق خواجہ صاحب سے‘ جو کراچی میں رہتے ہیں پوچھا کہ آپ ہی بتایئے اس بارے میں کیا ہونا چاہئے؟ میری رائے تو یہ ہے کہ حکومت پاکستان کو اس سلسلے میں سب سے پہلا کام تو یہ کرنا چاہئے کہ جہاں جہاں بھی ذخیرے ہیں ان  کی حفاظت کا انتظام کیا جائے‘ ایسے لوگوں کو متعین کیا جائے جو ان محظوطات کو محفوظ کرنے کا کام جانتے ہوں اسکے بعد ان ذخیروں کے کیٹلاگ بننے چاہئیں اور تحقیق کرنے والوں کو سہولتیں دینی چاہئیں اور جو اہم محظوطے لاہور میں ہیں انکے فوٹو سٹیٹ کراچی میں اور جو کراچی میں ہیں انکے فوٹو سٹیٹ لاہور میں ہونے چاہئیں یہ کام حکومت ہی کر سکتی ہے کوئی فرد تو کر نہیں سکتا‘ جہاں جہاں کتابیں ہیں انکی فہرستیں بننی چاہئیں کچھ یہی بات جامعہ ملیہ دہلی کے استاد پروفیسر گوپی چند نارنگ نے بھی کہی انکی تجویز ہے کہ یہ کام بہت سنجیدگی سے اور بڑی باقاعدگی سے اور ضابطے کے ساتھ ہونا چاہئے ہندوستان کے کتب خانوں کی فہرستوں کے بارے میں پروفیسر نارنگ نے کہا”کچھ فہرستیں چھپی ہیں کچھ نہیں چھپیں‘ مثلاً خدا بخش لائبریری اور رضا لائبریری کے کچھ کٹیلاگ موجود ہیں لیکن جہاں جہاں نہیں ہیں وہاں سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ محظوطات کی فہرستیں بلکہ وضاحتی فہرستیں چھاپی جائیں اور ایک سروس ایسی ہونی چاہئے جہاں سے معلوم ہو سکے کہ کون سی کتاب کہاں کہاں دستیاب ہے یہ کام صرف علوم شرقیہ ہی کیلئے نہیں بلکہ دوسرے علوم اور دوسری زبانوں کیلئے بھی ہونا چاہئے اب فرض کیجئے کہ کوئی میر حسن کی مثنوی کے مخطوطے دیکھنا چاہتا ہے یا کلیات شاہ حاتم دیکھنا چاہتا ہے تو اسے اس قسم کی ڈاکو مینٹشن سروس کی مدد سے معلوم ہو جائے کہ یہ چیزیں کہاں کہاں ملیں گی یہ ایک بہت بڑی کمی ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان میں پرانی کتابوں کو بچانے اور محفوظ کرنے کیلئے بڑا کام ہوا ہے اور ہو رہا ہے میوزیم اور آرکائیوز عام لوگوں سے اہم کتابیں خرید رہے ہیں خصوصاً تاریخ کے موضوع پر دلی کا نیشنل آرکائیوز کچھ عرصے پہلے تک خریداری کر رہا تھا اور نیشنل میوزیم میں یہ سلسلہ آج تک جاری ہے کتب خانوں کو حکومت سے معقول رقم مل رہی ہے اور گھرانوں میں موجود کتابوں کو بچانے کی کوششیں بھی ہوئی ہیں مگر یہ کوششیں بھی مسائل سے آزاد نہیں جیسا کہ پروفیسرگوپی چندنارنگ نے کہا”اگرچہ ملک میں ایک قانون بنا تھا کہ محظوطات چونکہ قومی اہمیت کی میراث کا حصہ ہیں اسلئے انکو رجسٹرکرایا جائے  مخطوطات ہوں تاریخی دستاویزات ہوں دوسری پرانی ہاتھ کی تحریریں ہوں انہیں رجسٹر کرانا ضروری قرار دیا گیا اور کچھ لوگوں نے کرایا بھی لیکن ایک تو اس قانون کا عرفان عام نہیں ہے دوسرے یہ کہ اگر کوئی رجسٹر نہیں کراتا تو اس قانون کا نفاذ کس طرح ہو کیونکہ قانون کے نفاذ کرنے کیلئے دیانت دار عملے کی ضرورت ہوتی ہے اور سب سے بڑی کمی اس زمانے میں دیانت ہی کی ہے چنانچہ اس کا نفاذ بالکل نہیں ہو رہا ہے اور جو لوگ رجسٹر نہیں کراتے وہ نہیں کراتے اور وہ اس کا فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اور کبھی کبھی یہ گھاٹے میں رہتے ہیں کہ وہ چیزیں گم ہو جاتی ہیں چوری ہو جاتی ہیں اورکہاں سے کہاں پہنچتی ہیں بعض اوقات تو چلتے کسی میوزیم میں پہنچ گئیں یا کسی دوسری لائبریری میں پہنچ گئیں بیچ میں کسی نے کچھ کمالیا کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ چیزراہ میں ماری جاتی ہے اور کسی ایسے غلط آدمی کے ہاتھ پڑ جاتی ہے جو اس کی قدروقیمت کو نہیں جانتا اور اس طرح قومی میراث کی وہ کڑی ہمیشہ کیلئے گم ہو جاتی ہے بس ہماری کل گفتگو یہیں ختم ہو تی ہے اور کیسی ستم ظریفی ہے کہ پروفیسر نارنگ کی بات کا جو آخری جملہ ہے وہی ہم سب کی پہلی تشویش ہے دعویٰ تو ہمارا یہ ہے کہ ہمارا یہ دور شعور کا دور ہے ٹھیک ہے لیکن قومی میراث کی کڑیاں اگر ایسے دور میں گم ہوئیں تو یقین ہے کہ آنے والے زمانے ہمارے شعور اور شعور کے دعوے پر ہنسیں گے یا شاید روئیں گے۔