کڑی گم ہو جاتی ہے

نایاب کتابوں اور مخطوطات کی تلاش میں دور دراز کا سفر کرنے والے اور اس موضوع پر ”کتب خانہ“ نامی کتاب  کے مصنف مشہور براڈکاسٹر رضا علی عابدی  اسی کتاب کے ایک باب میں لکھتے ہیں کہ ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب برصغیر کے ہر صاحب حیثیت کے دولت خانے میں تنی خانے اور ہوا کرتے تھے مہمان خانہ‘ اسلحہ خانہ اور کتب خانہ‘ ایک روایت یہ بھی ہے کہ صرف حیدرآباد دکن میں چار ہزار کتب خانے تھے مگر ہوا کے رخ بدلے تو وقت کے جھونکے ان دولت خانوں کو سوکھے پتوں کی طرح اڑا لے گئے بوسیدہ مکانں کے اندر اور ٹوٹی پھوٹی چھتوں کے نیچے ایسے کئی بزرگوں سے میری ملاقات ہوئی جنہوں نے اپنی آنکھوں سے کتابوں کے یہ شاندار ذخیرے دیکھے تھے اور پھر ان ہی کی  آنکھوں نے سونے چاندی کے پانی سے لکھی ہوئی کتابیں ٹھیکروں کے بھاؤ بکتے یا وقت کے ہاتھوں مٹتے دیکھیں ان کتابوں کی باتیں کرتے کرتے ان کی آنکھیں ڈبڈ بائیں اور ہونٹ لرزنے لگے کتابوں اور کتاب گھروں کی یہ تیرتھ یاترا مجھے سندھ سے دکن تک اور بہار سے راجستھان تک لئے پھری اور یہ میرا شرف کہ مجھے طرح طرح کے کتب خانے دیکھنا نصیب ہوا جہاں کہیں میں خود نہ جا سکا ان کا احوال دوسروں کی زبانی سنا اسکے باوجود کتنے ہی ایسے گوشے باقی رہ گئے جہاں نہ تو میری رسائی ہوئی نہ وہ میرے علم میں آئے اسلئے مجھے اعتراف ہے کہ میری فہرست ادھوری ہے یوں بھی اس گفتگو کا مقصد برصغیر کے تمام کتب خانوں کی مکمل فہرست ترتیب دینا نہیں بلکہ اس بنیادی سوال کا جواب ڈھونڈنا ہے کہ ہماری کتابیں کس حال میں ہیں اور اگر وہ حال اچھا نہیں تو پھر اس کیا علاج ہو؟ یہ ایک یورنیورسٹی کا ذکر ہے، میں لائبریری دیکھنے گیا، نہایت اچھی عمارت، بہت کشادہ کمرے، جن کی الماریوں میں چنی ہوئی قطار در قطار کتابیں اور پھر مطالعہ گاہ کا لمبا چوڑا ہال، اس میں خاص طور پر سنجیدہ مطالعے کے لئے آرستہ ایسی میزیں کہ ہر میز پر تین اطراف سکرین تاکہ ہر طالب علم سر جھکا کر دھیان لگا کر پڑھے، کوئی مخل نہ ہو۔ کسی کا کوئی حرج نہ ہو۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہاں خاموشی بھی تھی، سکون بھی تھا سب کچھ تھا مگر پڑھنے والا کوئی نہیں تھا۔ جہاں تک نگاہ جاتی تھی کرسیاں خالی اور میزیں ویران پڑی تھیں۔ یہ کیس ایک لائبریری کا نہیں بے شمار کتب خانوں کا سانحہ ہے۔ کتابوں کی حالت اگر خراب ہے تواسکی کچھ ذمے داری ان کے قاری پر بھی آتی ہے جو انہیں تنہا چھوڑ گیا ہے۔ اردو کے نامور استاد، محقق اور انشاء پرداز جناب گیان چندان کتب خانوں کی باتیں کر رہے تھے جن میں علوم شرقیہ کی کتابیں چنی ہیں۔ کہنے لگے”جس کتاب خانے میں بھی جائیے، ذاتی کتب خانوں کو چھوڑ ئیے، اداروں کے کتب خانوں میں بھی مخطوطات گل رہے ہیں۔ دیمک کھا رہے ہیں اور خستہ حالت ہے۔ بڑی دقت یہ ہوگئی ہے کہ موجودہ نسل میں ان کے جاننے والے بہت کم ہیں۔ یونیورسٹیوں میں یہ ہو رہاہے کہ لوگ ریسرچ کرنے آرہے ہیں کیونکہ ملازمت کی خاطر ڈگری لینی پڑتی ہے۔ لیکن ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ بیسویں صدی کے کسی زندہ ادیب  پر تحقیق کر لی جائے،کسی ناول نگار پر یا کسی شاعرپر تھیسس لکھ دیا جائے۔ اس میں بڑی سہولت یہ ہے کہ اس کے پاس جائیں گے، اس سے سوانح پوچھ لیں گے، وہی تنقید لکھ کر دے دے گا اور کتاب تیار ہے۔ ایک ایک مصنف پر کئی کئی نے کام کیا ہے، لیکن پرانے ادب پر اورانیسویں صدی پر تحقیق کرنے کیلئے کوئی تیار نہیں ہے۔ اٹھارویں صدی اور اس سے پہلے کے کام پر کوئی تحقیق کرنے  کیلئے آمادہ نہیں۔تو یہ جو صورت حال ہو گئی ہے،اس کا کیا کیا جائے۔اردو کے اساتذہ بھی کم ایسے ہیں جنہیں قدیم ادب سے دلچپسی ہو، اس کیلئے ضروری ہے کہ فارسی جانتے ہوں، اب فارسی کا علم ہی کم ہوتا جارہا ہے، پھر مخطوطات سے دلچسپی ہو اور ان کو ترتیب دیں، شائع کریں،اس میں ایک عمر صرف ہوتی ہے جس کا فی الفور کوئی حاصل ہوتا نہیں۔ تو یہ بڑی دشواری ہوگئی ہے، اردو کے ساتھ کہ اردو کا جو پرانا ذخیرہ اور خزینہ ہے اس کو کس طرح سامنے لایا جائے۔“