غضب کی حکمت

مشہور براڈکاسٹر رضا علی عابدی اپنی کتاب ”تیس سال بعد“ میں لکھتے ہیں کہننھے بچے کا پہلا قدم...اس کا پہلی بار ماں کہنا...سکول میں پہلا دن... پہلی ملازمت... پہلی محبت‘ یہ سب یوں یاد رکھا جاتا ہے جیسے ساری دنیا کی تاریخ ایک طرف اور اس ماں کے لاڈلے کی زندگی دوسری طرف‘ مجھے بھی سکول میں اپنا پہلا دن یاد ہے اپنی کسی شرارت کی وجہ سے نہیں اپنی حماقت کے ہاتھوں‘ سوال تھا بیس میں پانچ کتنی بار شامل ہیں؟ میں نے لکھا پتہ نہیں‘ یہ جواب بھی کچھ اتنا غلط نہ تھا خود ہی سوچئے کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ بیس میں پانچ کتنی بارشامل ہے تو سکول جانے کی ضرورت ہی کیا تھی‘ اس سے میں نے جو بات سیکھی وہ پانچ کا پہاڑا یا تقسیم کا عمل نہیں تھا اس سے میں نے جو بات اچھی طرح ذہن نشین کرلی وہ یہ کہ زندگی کے ہر میدان میں پہلا قدم اٹھا کر انسان کچھ نہ کچھ سیکھتا ضرور ہے ایسا تجربہ آخر میں ہم سے یہ سطر لکھواتا ہے کہ پس اس سے ثابت ہوا کہ معاملہ یوں ہے یوں نہیں‘ اب یہ سطر میں شروع ہی میں لکھتا چلوں کہ زندگی میں پہلا سفر کرنے کے بعد یہ کہاجا سکتا ہے کہ پس اس سے ثابت ہوا کہ کسی جگہ کو پہلے پہل دیکھنے سے جو اچھوتے مشاہدے ہوتے ہیں اسی مقام کو بار بار دیکھیں تو اس کا اچھوتا پن جاتا رہتا ہے مجھے یاد ہے کہ جب میں پہلی بار راولپنڈی گیا اور یہ بات 60ء کی ہے تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ صدر کے علاقے میں بجلی کے کھمبے نہ تو سڑک کے کنارے لگے ہیں اور نہ بیچوں بیچ‘ بس عجب بے تکی سی جگہ لگے ہیں اور سارا ٹریفک ان سے بچتا بچاتا چل رہا ہے اور روز کے روز اس راہ سے گزرنے والوں کو احساس تک نہیں کہ یہ بے ڈھب کھمبے ہر ایک کی راہ میں حائل ہیں اور یہ کہ یہ کیسے نرالے کھمبے ہیں کہ سڑک کے کنارے پر نہیں بات صرف اتنی سی تھی کہ وہی کھمبے سڑک کے بیچ میں آگئے اسی طرح ایک بار میراخیرپورجاناہوا شہر کی بہت مصروف سڑک کے کنارے میں نے عجیب منظردیکھا یا یوں کہئے کہ مجھے عجیب لگا اور وہ یہ کہ کوئی شخص وہاں کوڑے کے ڈھیر پر اپنا بھاری بھر کم لیکن بیکار ٹرک پھینک گیا صاف ظاہر تھا کہ کوڑے کے ڈھیر پر وہ ٹرک کافی عرصے سے پڑا زنگ کھا رہا تھا اوپر سے غضب یہ کہ بلدیہ سمیت کسی کو یہ احساس تک نہ تھا کہ کوڑے کے ڈھیر پر کوئی اپنا بیکار ٹرک پھینک گیا ہے کچھ عرصے بعد میرا دوبارہ خیرپور جانا ہوا اس مرتبہ یہ بی بی سی کا دورہ تھا اور  منہ سے کہے بغیر صاف صاف کہا کوڑے کے ڈھیر پر ٹرک پڑا ہے تو کیا ہوا؟ اسی شام ریڈیو پر اس کا ذکر نشر ہوگیا اگلے روز میرا ادھر سے گزر ہوا تو نہ صرف وہ ٹرک بلکہ اسکے نیچے جمع مہینوں پرانا کوڑا بھی اٹھایا جا چکا تھا البتہ میری تصور کی آنکھ دیکھ سکتی ہے کہ اٹھانے والوں نے دل ہی دل میں میری شان میں کیاکیا نہ کہا ہوگا مثلا یہ کہ آگئے ولایت سے فلاں کے فلاں‘ پس اس سے جو کچھ ثابت وا اب اس کی تشریح کی چنداں ضرورت نہیں‘ یہ بات1982ء کی ہے مجھے بی بی سی لندن سے وابستہ ہوئے پورے دس برس ہورہے تھے میں بہت سے مقبول پروگرام نشر کرچکا تھا اور برصغیر میں ہمارے سامعین مجھ سے خوب خوب واقف تھے حکام بالا نے اس وقت فیصلہ کیا کہ مجھے پاکستان اور بھارت کے دورے پر بھیجا جائے دو باتیں طے ہوئیں ایک تو یہ کہ میں مختلف شہروں میں اپنے سننے والوں سے ملاقاتیں کروں دوسرے یہ کہ پرانے پرانے کتب خانوں کا جائزہ لوں اور ایک پروگرام ترتیب دوں جس کا بنیادی خیال یہ ہو کہ ہمارے بزرگوں کی چھوڑی ہوئی کتابیں کہاں کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں میری تصنیف کتب خانہ میں اس کا سارا احوال درج ہے بعض لوگ کتاب کے نام سے خدا جانے کیا سمجھ بیٹھتے ہیں اور اسے نہیں پڑھتے ورنہ کتابوں کے خزانوں کا حال خود کسی خزانے سے کم نہیں۔اس موضوع پر ریڈیو کا دستاویزی پروگرام بھی نشر ہوگیا اور اس پر مبنی کتاب بھی وجود میں آگئی مگر اس سفر کا دوسرا پہلو تاریکی ہی میں رہ گیا اور وہ یہ کہ میں شہر شہر گیا اور ان گنت لوگوں سے ملا یہ تو کوئی جان ہی نہ سکا کہ میں نے کہاں کہاں کیا کیا دیکھا‘ مجھ پر کہاں کیا گزری اور میں نے اپنے مشاہدے کی جھولی میں کیا کیا بٹورا‘ کہنے کو تو یہ کوئی بڑی بات نہیں لیکن اب پلٹ کر دیکھتا ہوں تو خیال ہوتا ہے کہ وہ جو پہلا پہلا  مشاہدہ تھا وہ جو ان دیکھے نظارے تھے وہ جو ہر بات نئی نئی تھی اور وہ جو نئے نئے سفر میں ایک عجب سا ولولہ ہوتا ہے اس نے ذہن پر کیسے کیسے نقش ابھارے ان کا ذکر تو رہ ہی گیا‘ اس واقعے کو اب تیس برس ہونے کو ہیں اب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں اور ان لمحوں کو سوچنے کے جتن کرتا ہوں تو کچھ دھواں دھواں سا نظر آتا ہے ایسے میں ایک عجب واقعہ ہوا میرے کاغذوں کے ایک پلندے سے وہ تحریریں یادداشتیں نکل آئیں جو میں نے ان ہی دنوں جب ساری یادیں تازہ تھیں درج کرلی تھیں کچھ ریڈیو پر سنانے کو اور کچھ بعد میں لکھنے کے خیال سے‘ اب تین دہائیوں کے بعد جو انہیں پڑھا تو لگا کہ یہ میری نہیں‘ کسی اور کی تحریر ہے جو کچھ میں نے پڑھا وہ ذہن میں کہیں محفوظ نہ تھا اوپر سے یہ کہ اس میں کھوج لگانے کے عمل نے کچھ اور طرح کی تاثیر شامل کردی تھی وہی جس کے بعد کہہ سکتا ہوں کہ پس ثابت ہواکہ اہل انگلستان جو ہر بات کے نوٹ بناتے جاتے ہیں اس میں بھی غضب کی حکمت ہے۔