کاغذ خریدنے میں مشکل

ایک زمانے میں میں ایک پرچہ رسالہ نکالتا تھا ماہنامہ”بڑا خوصورت رنگین”داستان گو“ اس کا نام تھا ت ہماری مالی حالت درمیانی تھی‘ لیکن اس پرچے کو نکالنا میں اپنا فرض سمجھتا تھا کہ کیونکہ وہ لوگوں کو بہت پسند آگیا تھا تو اتنے پیسے نہیں تھے تو میں ایک دفعہ اس کا کاغذ خریدنے کیلئے گیا کاغذ کا ایک رم خریدا تو میرے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں تھا کہ میں اس کاغذ کے رم کو کسی تانگے میں کسی رکشہ میں یا کسی ریڑھی میں رکھ کے لے آتا تو میں نے کاغذ کا رم لیا اس کو دوہرا کیا اور گندھے پر رکھا لیا بائیسکل میں چلاتاتھا بڑی اچھی بائیسکل تھی میرے پاس‘ تو میں سائیکل پر سوار ہوگیا اور جب چلا تو  انارکلی میں اس وقت بھی خاصا رش ہوتا تھا تانگے آرہے ہیں‘ ریڑھے آرہے ہیں سائیکلیں اور جو بھی کچھ اس زمانے کی ٹریفک تھی وہ چل رہی تھی تو کرنا خدا کا کیا ہوا کہ وہ کاغذ کا رم جو ہے اسکے جو بیٹن لگا ہوا ہوتا ہے اوپر کا مضبوط خاکی کاغذ وہ پھٹ گیا اور پھر یکھتے دیکھتے چھر۔ ر۔ر۔ر۔ر کرکے پانچ سو کاغذ جو تھے وہ ساری انارکلی میں پھیل گئے اور ادھر سے آنے والے جو تانگے تھے اسکے پہیے ظاہر ہے گیلے ہوتے ہیں ایک کاغذ لپیٹ ر چر۔ر۔ر۔ر‘ اور میں دیوانوں کی طرح بھاگ بھاگ کر کہتا ذرا تانگہ روکو ایک کاغذ وہ لے گیا ایک کاغذ وہ لے گیا تو پھر بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا میں نیچے بیٹھ گیا اور کاغذ اکٹھے کرنے لگا کہ جتنے بھی بچ جائیں اتنے ہی غنیمت تھے آہستہ آہستہ جتنے بھی کاغذ بچ سکے کچھ تین سو ساڑھے تین سو ان کو میں نے اکٹھا کیا لپیٹا کسی شخص نے مجھے وہاں ایک چھوٹا ساستلی کا ٹوٹا دیا وہ میں نے باندھا اورباندھ کے پھر اسے کندھے پر رکھ کر چلا توپھر مجھے اپنی زندگی کے اوپر‘ اور اس حالت کے اوپر اور ہتک عزت کے اوپر‘ اور دلت کے اوپر‘ جو سب لول تماشا دیکھ رہے تھے اور میں جھک جھک کے وہاں سے کاغذ اکٹھے کر رہا تھا بڑی شرمندگی کا بھی احساس ہوا اور ندامت تو تھی ہی‘ ساتھ نقصان کا بھی دکھ تھا‘ جب یہ اکٹھے کرکے میں گھر آا رونی صورت بناکے تو میں نے یہ سارا واقعہ اپنی بیوی سے بیان کیا یہ واقعہ گزر گیا کئی سال بیت گئے تو میں نے بھی اپنا ایک البم تیار کرلیا دکھوں کے البم ساروں کے پاس ہوتے ہیں تو میں نے بھی اس البم میں یہ واقعہ جو چھوٹا ساتھا اور اگرچہ اتنا اہم نہیں رہا تھا کہ شامل کیا جاتا ایک دفعہ میں اپنا کاغذ خریدنے گیا اور میں اسے انارکلی میں کندھے پر رکھ کے‘ اور میرا بیٹا حیرانی سے دیکھ رہاہے اسکے دل پر بڑا عجیب سا اثر ظاہر ہے ہوا ہوگا تکلیف وغیرہ‘ لیکن وہ اس کی نظروں میں ایک ہیرو بن گیا اور میں خود بھی اپنے آپکو ایک ہیرو سمجھتا گیا کہ دیکھو کن مشکلات اور حالات اور کیسے تکلیف دہ اوقات سے گزرا ہوں یہ نہایت گھٹیا بات ہے جو آپ کرتے ہیں اور جسکے ساتھ میں بھی شامل ہوں کیا ہوا اگر ایک چھوٹا سا ذرا تکلیف دہ وقت آیا اور تم نے اس کو اتنا پھیلا کرکے اس کو پورا وہ جو کیا ہوتی ہے پینوراما سکرین کے اوپر سنانا شروع کر دیا اس کو بند ہونا چاہئے۔ہماری ریڈیو کی ایک یونین ہوا کرتی تھی۔ اس میں ہم کچھ نئی باتیں سوچتے تھے۔ اپنے آپ کو یا کارکردگی بہتر بنانے کیلئے اور سننے والوں کو آسانیاں عطا کرنے کیلئے۔ اس دور میں ریڈیو کا خاصا کام ہوا کرتا تھا۔ ہماری یونین کے ایک صدر تھے۔ انہوں نے ایک روز میٹنگ میں یہ کہا کہ ظاہر ہے کہ اجلاس میں آپ خرابیاں ہی بیان کریں گے اور میں آپ لوگوں سے یہ درخواست کروں گا کہ آپ تیرہ اور پندرہ منٹ تک جتنی برائیاں بیان کر سکتے ہیں، کریں۔ لیکن پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں کیونکہ کسی نے ہمیں کوئی تعمیری چیز تو بتانی نہیں، نقص ہی نکالنے ہیں اور بہتر یہی ہے کہ آپ ایسا کرلیں۔ ہمارا ریڈیو سٹیشن نیا نیا بنا تھا تو بارش میں اس کی چھتوں پر ایک تو پانی کھڑا ہوجاتا تھا اور دوسراکھڑکی کے اندر سے پانی کی اتنی دھاریں آجاتیں کہ کاغذ اور ہم خود بھی بھیگ جاتے، ایک روز ایسی ہی بارش میں ہم سب بیٹھ کر اس کو تعمیر کرنے والے کو سنانے لگے کہ ایسا ہی ہونا تھا، بیچ سے پیسے جو کھالئے ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے ساتھ ہمارے ایک ساتھی قدیر ملک وہ صوتی اثرات کے ماہر تھے، وہ سائیکل بڑی تیز چلاتے تھے۔ دبلے پتلے آدمی تھے، وہ تیزبارش میں سائیکل لے کر غائب ہوگئے، ان کے گھر میں پرانا کنستر کا ایک ٹکڑا پڑا تھا، وہ اسے لے آئے اور چھت پر انہوں نے کنستر کے ٹکڑے کو ٹیڑھا کرکے ایک اینٹ نکال کر فکس کر دیا میں 1971ء کے انتخابات میں ایک جگہ پر ریٹرننگ آفیسر تھا ہم جلدی جلدی ووٹ ڈلوا رہے تھے وہاں ایک بابا آیا جس نے ریڑھی بنوائی ہوئی تھی وہ معذور تھا اور اس ریڑھی کے ذریعے حرکت کرتاتھا وہ آکے کہنے لگا کہ جی میں ”تلوار نوں ووٹ پانا اے“ میں نے کہ بابا جی بسم اللہ تو جہاں کہے گا مہر لگائیں گے لیکن رش زیادہ ہے تھوڑا انتظار کر لو لیکن اس نے کہا کہ نہیں جی میرے پاس ٹائم نہیں ہے وہاں میرے اسسٹنٹ کہنے لگے کہ جی اس کا ابھی ووٹ ڈلوادیں میں نے اس کی خوشنودی کے لئے کہا کہ بابا آپ کی ریڑھی بڑے کمال کی ہے یہ تو نے کہاں سے لی۔ کہنے لگا یہ میں نے خود بنائی ہے پہلے جو بنائی تھی اس کو میں نے بچوں والی سائیکل کے پہئے لگائے تھے وہ پکے پر خوب دوڑتی لیکن کچے میں وہ پھنس جاتی تھی۔ پھر میں نے لکڑی کے موٹے پہئے لگائے تو وہ کچے میں اچھے چلتے تھے اور پکے میں یا سڑک پر بہت شور مچاتے تھے پھر میں نے بیرنگ لگا دیئے بس ہر ہفتے مٹی کا تیل ڈال کر صاف کرنے پڑتے ہیں دیکھئے کہ وہ بابا چٹا ان پڑھ تھا میں نے اس سے کہا کہ بابا یہ تو نے کیسے بنائی وہ کہنے لگا کہ جی میں نے سوچ سوچ کے بنالی۔ میں نے جب اس سے بار بار پوچھا کہ کیا تو نے یہ خود ہی بغیر کسی کی مدد کے بنالی تو وہ بابا کہنے لگا اے دیکھو نہ جی اگربندہ پڑھیا لکھیا نہ ہووے تے فیر دماغ توں ای کم لینا پیندا اے نا۔“ایک کسان تھا اور اس کا بیٹا میرا واقف تھا وہ ایم بی بی ایس کا طالب علم تھا اور فائنل ائر میں تھا گاؤں میں اس کا باپ حقہ پی رہا تھا وہ کہنے لگا کہ اشفاق صاحب میرے بیٹے کو علم دیں جی میں نے کہا کہ کیوں کیا ہوا بہت اچھا علم حاصل کررہا ہے‘ وہ اپنے بیٹے کو مخاطب کرکے کہنے لگا کہ تو اشفاق صاحب کو بتا۔ وہ لڑکا کہنے لگا کہ جی میں ہارٹ سپیشلسٹ بننا چاہتا ہوں۔اس کا باپ پھر کہنے لگا کہ ”بے وقوف ایک بندے وچ اک دل ھوندا اے او ہندہ علاج کرکے انہوں ٹور دیں گا فیر کسے آؤنائیں تو دنداں دا علم پڑھ۔ بتی ہوندے نئیں کدے نہ کدے کوئی نہ کوئی تے خراب ہووے گا۔ ایس طرح بتی واری اک بندہ تیرے کو ل آئیگا۔“(اشفاق احمد کے ریڈیو پروگرام سے انتخاب)