حسین اتفاق

لاہور اور شیخوپورہ روڈ پر کئی ایک کارخانے ہیں ایک بار مجھے وہاں جانے کا اتفاق ہوا جب میں وہاں کام کرکے فارغ ہونے کے بعد لوٹا او ر گاڑی سٹارٹ کرنے لگا تو وہ سٹارٹ نہ ہوئی خیر میں نے ڈرائیور سے کہا کہ تم اپنی کوششیں جاری رکھو مجھے جلدی واپس جانا ہے لہٰذا میں بس میں چلا جاتا ہوں تم بعد میں آجانا‘جب میں بس میں بیٹھا تو وہاں اور سواریاں بھی تھیں ایک نیند میں ڈوبا ہوا نوجوان بھی تھا جسکی گودی میں ایک خالی پنجرہ تھا جیسے کبوتر یا طوطے کا پنجرہ ہوتا ہے وہ نوجوان اس پنجرے پر دونوں ہاتھ رکھے اونگھ رہا تھا جب اس نے آنکھیں کھولیں تو میرے اندر کا تجسس جاگا اور میں نے اس سے بات کرنا چاہی میں نے اس سے کہا کہ یہ خالی پنجرہ تم گود میں رکھ کے بیٹھے ہو وہ کہنے لگا کہ سر یہ پنجرہ کبھی خالی ہوتا ہے اور کبھی کبھی بھرا ہوا بھی ہوتا ہے وہ کہنے لگا کہ اس میں میرا کبوتر ہوتا ہے جو اس وقت ڈیوٹی پر گیا ہوا ہے اس نے بتایا کہ وہ یہاں کھاد فیکٹری میں خرادیہ ہے اور ویلڈنگ کا کام بھی جانتا ہے اور چھوٹا موٹا الیکٹریشن کا کام بھی سمجھتا ہے اس نے کہا کہ مجھے ہر روز اوورٹائم لگانا پڑتا ہے اور میں پانچ بجے چھٹی کے وقت پھر گھر نہیں جاسکتا اور گھر پر فون ہے نہیں جس پر بتا سکوں کہ لیٹ آؤں گا لہٰذا میں نے اپنا یہ کبوتر پالا ہوا ہے اس کو میں ساتھ لے آتا ہوں جس دن میں نے اوورٹائم لگانا ہوتا ہے اس دن میں اور میرا کبوتر اکٹھے رہتے ہیں اور میری بیوی کو پتہ چل جاتا ہے کہ ہم آج رات گھر نہیں آئیں گے لیکن جس دن اوورٹائم نہیں لگانا ہوتا تو کبوتر چھوڑ دیتا ہوں وہ پھر پھڑاتا ہوا اڑتا ہے اور سیدھا میری بیوی کی جھولی میں جا پڑتا ہے اور وہ قاصد کا کام کرتا ہے اور اسے پتہ چل جاتا ہے کہ آج اس کے خاوند نے گھر آنا ہے اور وہ کھانے پینے کا اہتمام کردیتی ہے اور اس نے جو بھی مٹر قیمہ بنانا ہوتا ہے تیار کردیتی ہے اور آج بھی کبوتر اپنی ڈیوٹی پر ہے وہ کہنے لگا کہ صاحب میں پڑھا لکھا تو ہوں نہیں میری چھوٹی سی عقل ہے وہ میرا کبوتر گھر پہنچ چکا ہوگا خواتین وحضرات پہلے تو مجھے اس پر بڑا تعجب ہوا کہ اس نے یہ بات سوچی کیسے؟وہ پنجرے والا کسی کے پیچھے نہیں گیا‘کسی کا محتاج نہیں‘کسی کی منت سماجت نہیں کی‘میں نے یہ ارادہ کیا کہ میں اپنے ادیب دوستوں کو صحافیوں کو اور دانشوروں کو بلانے اور تھانے کے ان لوگوں کو جو پولیس کے محکمے سے تعلق رکھتے ہیں ملاؤں گا اور ان کی آپس میں گفتگو کرواؤں گا تاکہ ان میں ارتباط باہمی پیدا ہو اور وہ ایک دوسرے کو پہچان لیں تو اس کا انتظام کیا گیا۔ ہمارے ہاں لاہور میں ایک جگہ ہے الفلاح‘ ہمارا ایک دفتر تھا نیشنل ری کنسٹرکشن کا۔ تو وہاں ایک ہال تھا اس میں بندوبست کیا۔ تو پولیس والے بہت خوش ہوئے اور وہ اپنی نئی نئی وردیاں اچھی کلف لگی ہوئی استری کی ہوئی‘ اچھے بوٹ چمکا کے آگئے اچھی ہے یہ ابتداء جس طرح دنیا کے دوسرے ممالک میں خاص طور پر انگلستان میں جو ”بوبی“ محبت کی نظروں سے دیکھتا ہے‘ ”بوبی“ جو سپاہی ہوتا ہے اس کا بچوں نے پیار سے نام ”بوبی“ رکھا ہوا ہے اور جتنے بچے سکول جاتے ہیں اور راستے میں کوشش کرتے ہیں کہ بوبی ان کو ملے جو ٹریفک کنٹرول کررہا ہوتا ہے وہ اسے ہاتھ ملا کر جائیں۔ بوبی کی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ سکول جاتے بچوں کو ساتھ تھپکی دے‘ اگر اس کی جیب میں کوئی میٹھی گولی‘ لیمن ڈراپ ہو‘ وہ رکھتا ہے جیب میں۔ وہ ان کو ضرور دیتا ہے۔ ان کے درمیان محبت کا بہت گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو راستہ پوچھنے والے کوئی بھی‘ آپ کو مشکل ہو تو آپ اپنے بوبی سے پوچھتے ہیں کہ مجھے کہاں جانا ہے۔ میں لندن میں تھا تو ایک مائی بڈھی ہمارے ہاں کی‘ کوئی اس کو زبان بھی نہیں آتی تھی تو وہ بوبی اس کے ساتھ بے چارہ لگا رہا۔ اب وہ بول رہی تھی پنجابی وہ انگریزی۔ اب باہمی گفتگو جاری تھی۔ وہ ایک ہی بات کہہ رہی تھی کہ برہمی گاؤں میں جانا ہے۔ برہمی گاؤں جانا ہے وہ سمجھتا نہیں تھا۔ میں نے بھی مائی سے پوچھا میری بیوی بھی ساتھ تھی۔ تو وہ بعد میں پتا چلا کہ وہ برمنگھم جانا چاہتی تھی اور برہمی گاؤں تلاش کررہی تھی‘ تو اتنا ہمیں پتا چل گیا۔ اس نے کہا Thank you ver much میں اس مشکل سے نکل گیا ہوں۔ وہ برمنگھم گاؤں جانا چاہتی تھی۔ I would help her آپ گھبرائیں نہیں۔ میں نے کہا‘ کیسے اب نہ اس کے پاس ٹکٹ ہے۔ لندن تک تو وہ پہنچ گئی جہاز نے اتار دیا۔ کہنے لگا‘ Now it is my duty تو میں اس کو لے کر جاؤں گا۔ تو میں نے کہا‘ آپ کیسے جائیں گے۔ کہنے لگا نہیں ہمارے پاس روزمرہ کے اخراجات میں سرکار نے اتنے پیسے دئیے ہوتے ہیں کہ اگر کوئی مشکل میں ہو تو اس کی مدد کریں۔ تو میں لے جاؤں گا۔ اپنا بھی ٹکٹ خرچ کروں گا‘ اس کا بھی کروں گا اور اس کو منزل تک پہنچاؤں گا تو اگر اس کا بیٹا جس کا پتہ اس نے بتایا ہے اس کے پاس سے پیسے مل گئے تو ٹھیک ہے ورنہ میں آکر اپنے محکمے کو بتا دوں گا۔ تو میں یہ چاہتا تھا کہ ہمارے درمیان بھی اس قسم کا رشتہ قائم ہو تو کیسی محبت کی بات ہے۔ (اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)