دو ڈاکٹر صاحبان کا ورلڈ ویو

میں ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب کا ٹاک شو ہر روز دیکھتا ہوں۔ جس دن مصروفیات زیادہ ہوں اس دن بھی کسی نہ کسی طرح آدھا گھنٹہ نکال کر یہ پروگرام دیکھ لیتا ہوں۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب جب تاریخ اور جغرافیے کے دقیق مسائل کی گرہیں کھولنے لگ جاتے ہیں تو میں پھر کنی کترا جاتا ہوں۔میں اگر چہ کہ گذشتہ چار عشروں سے امریکی اخبارات کا مطالعہ کر رہا ہوں اسکے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب  بین الاقوامی امور کی گرہ کشائی بڑی مہارت اورعرق ریزی سے کرتے ہیں۔انکو میسر بے پناہ وسائل کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتاہے کہ وہ اپنے ویوز کو دنیا بھر کے اخبارات کی کلپس دکھا کر بڑی چابکدستی سے ثابت کرتے ہیں۔اردو زبان کے ٹاک شوز میں شائد ہی کوئی ایسا ہو جسمیں گلوبل ٹائمز اور خلیجی ممالک کے اخبارات سے لیکر برطانوی اور امریکی اخبارات کی خبروں کے سکرین شاٹس بھی دکھائے جاتے ہوں۔ڈاکٹر صاحب ہفتے کے ساتوں دن پروگرام کرتے ہیں اور عید پر بھی ناغہ نہیں کرتے۔قومی اور عالمی سیاست سے انکی اس وابستگی کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے میں بھی بلا ناغہ انکا ساتھ دیتا ہوں۔ میں کئی مرتبہ انکے ساتھ اسلئے اتفاق نہیں کرسکتا کہ اس دن میں نے نیویارک ٹائمز‘ واشنگٹن پوسٹ اور وال سٹریٹ جنرل میں جو کچھ پڑھا ہوتا ہے ڈاکٹر صاحب اسکا استرداد کر رہے ہوتے ہیں۔اس سے میری مراد یہ ہے کہ بعض اوقات عالمی واقعات پر انکی گرفت مضبوط نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر امریکہ چین اور امریکہ روس تعلقات کے بارے میں انکی آرا کو میں معروضیت کے تقاضوں کے عین مطابق نہیں سمجھتا۔جنرل بپن راوت کی موت کو بھی انہوں نے ضرورت سے زیادہ سافٹ ٹچ سے برتا ہے۔ ظاہر ہے بھارت میں بھی انکے پروگرام کو دیکھا جاتا ہو گا یا پھر کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ جنرل بپن راوت کے عسکری بیک گراؤنڈ اور بھارتی سیاست میں انکے عمل دخل کے بارے میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے ناظرین کو جو معلومات مہیا کیں وہ امریکی میڈیا میں بھی عنقا تھیں۔جنرل راوت اور اجیت دوول دونوں کا اتر کھنڈ میں پیدا ہونا اور نریندر مودی کی ہندتوا  حکومت پر چھا جانا ایک چشم کشا انکشاف ہے جو ڈاکٹر صاحب اور انکی لائق و فائق ٹیم کی جفا کشی کا پتہ دیتا ہے۔ مجھے ڈاکٹر صاحب کے ٹاک شو پر کالم لکھنے کی ضرورت اسلئے پیش آئی کہ چند روز پہلے شاہد مسعود صاحب نائلہ علی صاحبہ کی کرسی پر مسند نشین ہو کر امریکہ کے پروفیسر ڈاکٹر عادل نجم صاحب کا انٹرویو کر رہے تھے میں نے پہلی مرتبہ ڈاکٹر شاہد مسعود کو ایک طالبعلم کی طرح سوال کرتے ہوے دیکھا۔انکے مہمان بڑی شگفتگی اور شائستگی سے جوابات دیکر دنیا بھر کے واقعات و حادثات کو اپنے ورلڈ ویو کی لڑی میں پرونے کی کوشش کر رہے تھے لاہور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر نجم صاحب بوسٹن یونیورسٹی میں Pardee School of Global Studies  کے Inaugural Dean ہیں انکا مرتبہ ہی انکے عالم فاضل اور صاحب فکر ہونیکا پتہ دیتا ہے۔ڈاکٹر شاہد مسعود اسی لئے اپنی افتاد طبع پر قابو پانے کی کوششوں میں کامیاب ہو کر مہمان کو حتی المقدور اظہار رائے کیلئے کھلا میدان دے رہے تھے۔میری افتاد طبع کسی بھی صورت اس جملہ معترضہ کے قابو نہیں آرہی کہ اس روز نائلہ علی صاحبہ کو ڈاکٹر عادل نجم پر رشک آ رہا ہو گا۔ اس پروگرام میں دونوں ڈاکٹر صاحبان ہر قومی اور عالمی مسئلے پر متفق نظر آ رہے تھے یا پھر میزبان اپنے مہمان کی علمی قدو قامت کے سامنے سپر انداز تھے میں عالمی واقعات اور اقوام عالم کے باہمی تعلقات کا ایک طالبعلم ہونے کے باوجود دونوں ڈاکٹر صاحبان کے مشترکہ ورلڈ ویو کی بعض جہتوں سے اتفاق نہ کرسکا میری رائے کے مختلف ہونیکی وجہ ڈاکٹر عادل نجم کی چند پیش گوئیاں اور تین عالمی طاقتوں کے باہمی تعلقات پر انکی سوچی سمجھی رائے ہے مثلاّّ ڈاکٹر نجم صاحب نے فرمایا کہ امریکہ چین تعلقات دراصل ایک نئی سرد جنگ ہے میری معلومات کے مطابق بائیڈن انتظامیہ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ امریکہ چین تعلقات پر کسی بھی صورت سرد جنگ کی اصطلاح کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ چین تعلقات اسلئے سرد جنگ کے زمرے میں نہیں آتے کہ چین ایک ایسی اقتصادی اور عسکری طاقت ہے جو کئی میدانوں میں امریکہ کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ سوویت یونین اسکے برعکس اقتصادی طور پر تو کھوکھلا تھا مگر جوہری میدان میں امریکہ کا ہم پلہ تھا۔ انٹونی بلنکن کے بیانات کے مطابق امریکہ چین کیساتھ اپنے تعلقات کو سرد جنگ اسلئے نہیں سمجھتا کہ بیجنگ بعض ایشیائی اور افریقی ممالک میں اپنا اثر رسوخ اس حد تک بڑھا چکا ہے واشنگٹن کیلئے ان ممالک میں راستے بنانا نہایت مشکل ہو گیا ہے اسکا مطلب یہی ہے کہ امریکہ چین کے عالمی اثر رسوخ کو تسلیم کر رہا ہے جبکہ سوویت یونین کو یہ رعایت اسنے کبھی بھی نہیں دی تھی۔ ڈاکٹر نجم نے یہ بھی کہا کہ سرد جنگ کے دنوں میں یہ Clarity تھی کہ کس ملک نے کس کیمپ کا حصہ بننا ہے آج یہ سہولت کسی بھی ملک کو حاصل نہیں سب درمیان میں کھڑے ہیں اور کوئی بھی کسی کیمپ کا حصہ بننے کی کوشش نہیں کر رہا۔ ڈاکٹر صاحب کی رائے میں یورپ بھی ان ممالک میں شامل ہے جو اضطراب کا شکار ہیں۔اس بات کو اگر درست مان لیا جائے تو اقوام عالم کا یہ اضطراب ظاہر کرتا ہے کہ آج کی دنیا سرد جنگ کی دنیا سے نہایت مختلف ہے۔ میں ڈاکٹر صاحب کی اس وضاحت سے بھی اتفاق نہیں کرتا کہ یورپ کھل کر امریکہ کا ساتھ نہیں دینا چاہتا۔ میری دانست میں یورپ کو ایک دفعہ پھر یہ تسلیم کرنا پڑ رہا ہے کہ وہ امریکہ کے بغیر روس کے توسیعی عزائم کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ امریکہ اگر آج یوکرین کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے تو یورپ ولادیمیر پیوتن کو یوکرین پر قبضہ کرنے سے نہیں روک سکتا۔یورپ کو اپنی کم مائیگی کا احساس ہے اسلئے وہ امریکہ کا ساتھ دینے میں قباحت محسوس نہیں کر رہا۔ برطانیہ اور یورپی یونین دونوں جانتے ہیں کہ جو بائیڈن کا امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ سے مختلف ہے۔سابقہ صدر اگر 2024 میں وائٹ ہاؤس میں دوبارہ براجمان ہو بھی جاتے ہیں تو فی الحال یورپ کو امریکہ کی ضرورت ہے۔ تین سال بعد جو ہوگا وہ دیکھا جائیگا قابل احترام ڈاکٹر صاحبان کے ورلڈ ویوز پر میرے مزید تحفظات کا ذکر اگلے کالم میں ہو گا۔