مشہور براڈکاسٹر رضا علی عابدی اپنی کتاب ”کتب خانہ“ میں لکھتے ہیں کہ انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی میں صرف سندھ کے موضوع پر پچپن ہزار کتابیں جمع ہیں اور ان میں زیادہ تر نایاب ہیں۔ جام شورو میں سندھ یونیورسٹی سے وابستہ اس ادارے میں بہت بڑے کتب خانے کے ساتھ ساتھ قدیم کتابوں کو محفوظ کرنے کے وہ تمام انتظامات بھی ہیں جو مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں پائے جاتے ہیں۔وہاں فیومی گیشن چیمبرہیں جنکے اندر رکھی ہوئی پرانی کتابوں کے کیڑے مکوڑے ختم ہو جاتے ہیں ہیلن نکل جاتی ہے اور پرانا کاغذ گلنے سے بچ جاتا ہے اسکے علاوہ وہاں کتاب کے ہر ورق پر جھلی جیسا کاغذ چڑھانے کا بندوبست بھی ہے جس کے بعد پرانا کاغذ صدیوں کیلئے محفوظ ہو جاتا ہے انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی میں کتابوں کے ایک ایک صفحے کی چھوٹی سی فلم بنانے کے جدید انتظامات بھی ہیں اور اس مائیکروفلنگ کے علاوہ ہر صفحے کی چھوٹی سی فلم بنانے کے جدید انتظامات بھی ہیں اور اس مائیکرو فلنگ کے علاوہ ہر صفحے کی فوٹو کاپی اتارنے کے آلات بھی لگے ہیں پرانی کتابوں کے ازسرنو جلد بندی ہوتی ہے اور قابل ذکر اور قابل دید کتابوں کو شوکیسوں میں سجا دیا جاتا ہے اور وہیں اس کتاب کے بارے میں تمام ضروری معلومات تحریر کردی جاتی ہیں چنانچہ وہاں سینکڑوں کتابیں ایسی ہیں کہ انہیں پڑھنا تو رہا ایک طرف‘ دیکھنا ہی نصیب ہو جائے تو خود کو خوش نصیب جانیئے‘ انسٹیٹوٹ آف سندھالوجی کو ملا کر‘ صوبے میں اس نوعیت کے تین ادارے ہیں انکے متعلق ڈاکٹرالانا نے بتایا ”ان میں سب سے سینئر ادارہ سندھی ادبی بورڈ ہے اسکے بعد ہے انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی اسکے بعد ہے خیرپور کی پبلک لائبریری‘ ان تینوں اداروں میں جہاں تک قلمی نسخوں کا تعلق ہے تو سندھی ادبی بورڈ اوّل ہے وہاں سب سے زیادہ پرانے نسخے ہیں کیونکہ وہ پرانا ادارہ ہے اسکے بعد سندھ کے عالموں اور فاضلوں کی لکھی ہوئی کتابیں سندھالوجی میں ملیں گی لیکن خیرپور کی لائبریری بھی کم نہیں کیونکہ تعداد کے لحاظ سے وہاں قلمی نسخے زیادہ ہیں اس لائبریری میں تالپور حکمرانوں کے زمانے کا کلیکشن موجود ہے وہاں خود سندھ کے متعلق کتابیں اتنی زیادہ نہیں لیکن برصغیر کے قلمی نسخے وہاں زیادہ ہیں‘ حیدرآباد سندھ کے بڑے کتب خانوں میں شاہ ولی اللہ اکیڈمی کی لائبریری قابل ذکر ہے اس میں خود شاہ صاحب کی تصانیف کے علاوہ اسلام اور تاریخ اسلام پر مخطوطہ اور مطبوعہ کتابوں کا ایسا نادرذخیرہ محفوظ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں تحقیق کرنے والوں کو بھی اپنی بات تکمیل کو پہنچانے کیلئے وہاں جانا پڑتا ہے‘سندھ یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری میں بھی کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہے اور وہاں پانچ چھ سو قلمی کتابیں موجود ہیں جن کی اب مائیکرو فلم بنائی جارہی ہے تاکہ ان کا عکس ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو جائے اس کے علاوہ حیدر آباد میں صوبائی میوزیم کے پاس بھی بہت سی نایاب کتابیں ہیں اور انہوں نے تقریباً ڈیڑھ سو قلمی نسخوں کا ایک ذخیرہ حال ہی میں خریدا ہے حیدرآباد شہر میں پاکستان نیشنل سنٹر کا کتب خانہ بھی ہے جہاں تقریباً بیس ہزار نئی اور پرانی کتابیں ہیں‘ ان سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے بعد اب ہم آپ کو سندھ کے ایک عجیب و غریب کتب خانے کے بارے میں بتاتے ہیں جو پتھریلے میدانوں اور سنگلاخ چٹانوں کے پچھواڑے ایک چھوٹے سے گاؤں کو ٹڑی محمد کبیر میں ہے اور علم کا یہ ذخیرہ دنیا کی نگاہوں سے روپوش ہے‘ کوٹڑی محمد کبیر نواب شاہ میں نیشنل ہائی وے پر ایک قدیم گاؤں ہے جہاں کبھی مخدوم شیخ محمد کبیر اور سخی شیخ اللہ یار کی درس گاہیں تھیں اور اب ان دو بزرگوں کی درگاہیں ہیں وہاں پرانی درسگاہوں کی کتابیں ابھی تک موجود ہیں جنکے بارے میں ڈاکٹر الانا نے کہا‘ وہاں میری نظر میں سب سے زیادہ قیمتی اور نایاب کتابیں مخطوطوں کی شکل میں پائی جاتی ہیں کوٹڑی محمد کبیر ایک ایسا گاؤں ہے جہاں کے بزرگوں نے صدیوں پہلے کتابیں اکٹھا کرنا شروع کی تھیں اور مشہور ہے کہ سندھ کے بزرگ شاعر شاہ لطیف بھی وہاں گئے تھے اور انہوں نے بھی کچھ کتابیں دیکھی تھیں۔