دو ڈاکٹر صاحبان کا ورلڈ ویو(حصہ دوم)

یہ امریکی خارجہ پالیسی کی کامیابی ہے کہ اسنے یورپ کو چین اور روس دونوں سے فاصلے بڑھانے پر آمادہ کر لیا ہے جرمنی‘ فرانس اور اٹلی کل تک للچائی ہوئی نظروں سے چین کی طرف دیکھ رہے تھے مگر اب انہیں اپنے امریکہ مخالف جذبات کو لگام دینا پڑ گئی ہے انہوں نے گذشتہ گیارہ مہینوں میں دیکھ لیا ہے کہ چین اور روس ملکر ایک ایسی طاقت بن سکتے ہیں جو انکے معاشی نظام کیلئے ایک بڑا خطرہ ثابت ہو سکتی ہے اس اعتبار سے یورپ کی موجودہ حکمت عملی میں خاصی Clarity پائی جاتی ہے صدر بائیڈن کے ورچوئل ڈیمو کریسی سمٹ میں 89 ممالک کی شمولیت بھی یہ ظاہر کرتی ہے کہ اقوام عالم کی اکثریت کا جھکاؤ کس طرف ہے یہ بات کسی شک و شبے سے بالا تر ہے کہ دنیا بھر میں لوگوں کی اکثریت مطلق العنانیت کے مقابلے میں جمہوریت کو پسند کرتی ہے ورلڈ پالیٹکس ریویوWPR کی حالیہ رپورٹ کے مطابق افریقی ممالک نے جمہوری سفر کا آغاز تیس برس قبل کیا تھا آجکل اگر چہ کہ مالی‘ گنی‘ چڈ اور سوڈان میں فوجی حکومتیں قائم ہیں مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ افریقی ممالک کی اکثریت جمہوریت کو ناپسند کرتی ہے Afrobarometer کے چونتیس ممالک میں کئے گئے سروے کے مطابق افریقی عوام کی ایک واضح اکثریت ملٹری رول‘ ایک جماعت یا ایک مرد آہن کی حکومت کوپسند نہیں کرتی ان ممالک میں کئی جماعتوں کے درمیان مقابلے‘ پارلیمانی نظام‘ اور حکومت کی سخت نگہداری کو پسند کیا جاتا ہے اس سروے میں افریقی عوام نے اپنی جمہوریتوں سے مایوسی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنی حکومتوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ جمہوری نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گی WPR کی رپورٹ کے مطابق  There is a clear, consistent verdict across the continent that more democracy, not less, would better serve  African hopes and aspirations افریقی ممالک اگر اپنے پسندیدہ نظام حکومت کے بارے میں کسی ابہام کا شکار نہیں تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ انکا جھکاؤ مطلق العنانیت کی طرف ہے انکے چین کیساتھ معاشی تعلقات کا یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ وہ چین کے نظام حکومت کو بھی پسند کرتے ہیں اس اعتبار سے آجکی دنیا کو دو واضح کیمپوں میں تقسیم کر کے نہیں دیکھا جا سکتا اس نئی دنیا پرنئی سرد جنگ کا لیبل لگاناOversimplification کے زمرے میں آتا ہے اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ چھ جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے کیپیٹل ہل پر جو حملہ کیا تھا وہ دراصل امریکہ کی جمہوری اقدار پر حملہ تھا اور اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ٹرمپ دوسری مرتبہ بھی صدارت حاصل کر سکتے ہیں دنیا اس بات کا بھی ادراک رکھتی ہے کہ امریکی جمہوریت dysfunctional بھی ہو سکتی ہے مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ اقوام عالم کی اکثریت مطلق العنانیت کو اپنانا چاہتی ہے اس معاملے پر اگر clarity ہے تو پھر دنیا کو دو کیمپوں میں منقسم ہونے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اضطراب‘ بے چینی اور ابہام کی تھیوری کو حرف آخر سمجھا جا سکتا ہے یہ وہ تھیوری ہے جسے پروفیسر ڈاکٹر عادل نجم صاحب نے ڈاکٹر شاہد مسعود کے ٹاک شو میں ثابت کرنے کی کوشش کی۔مجھے ڈاکٹر نجم صاحب کی گفتگو سنتے ہی یہ خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ میں انکے ورلڈ ویو سے اتفاق نہیں کر سکتا ڈاکٹر نجم صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ روس یوکرین میں داخل ہو جائیگامیری دانست میں یہ کہنا اسلئے قبل از وقت ہے کہ پیوٹن نے ان پرانی شرائط کا شدو مد کیساتھ اعادہ کیا ہے کہ نیٹو ممالک کو یہ یقین دہانی کرانا ہو گی کہ یوکرین نیٹو اتحاد کا حصہ نہیں بنے گا اور نہ ہی امریکہ روس کی سرحد پر جدید میزائل اور اسلحے کے ڈھیر لگا کر روس کی قومی سلامتی کیلئے خطرات پیدا کریگا اسوقت نیٹو ممالک نے سفارتکاروں کی ایک ٹیم کو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ ماسکو جا کر گفت و شنید کرے اور دونوں طاقتوں کے درمیان حائل خلیج کو پاٹنے کیلئے تجاویز مرتب کرے ان حالات میں پیوٹن کے ذہن کو پڑھنا آسان نہیں شائد اسے خود بھی معلوم نہیں کہ وہ کیا کریگا‘تائیوان کے بارے میں ڈاکٹر صاحبان نے بنیادی معلومات فراہم کئے بغیر یہ کہا کہ چین اس مسئلے کو escalate نہیں کرنا چاہتا تائیوان امریکہ تعلقات کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ تائیوان نے گذشتہ گیارہ مہینوں میں امریکہ کو 72 بلین ڈالر کی اشیا ایکسپورٹ کی ہیں ان میں زیادہ تعداد ایسے کمپیوٹر چپس اور سیمی کنڈکٹرز کی ہے جوآجکل امریکہ میں نہیں بن رہے اور جن کی امریکہ کو سخت ضرورت ہے واشنگٹن نے حال ہی میں تائیوان کو 1.8 بلین ڈالرکے راکٹ لانچر‘  سینسر اور آرٹلری piecesدینے کا اعلان کیا ہے اس سے پہلے چین طاقت کے زور پر تائیوان پر قبضہ کرنے کی دھمکی دے چکا ہے ڈاکٹر نجم صاحب کی یہ بات درست ہے کہ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جو اچانک کسی بڑی جنگ کا باعث بن سکتی ہے اس امر سے انکار ممکن نہیں مگراس بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ چین کسی خطرے کی صورت میں جارحانہ رویہ اختیار نہیں کریگا اس پروگرام کے میزبان اور مہمان اس بات پر متفق تھے کہ ” پاکستان میں Clarity نہیں ہے کہ کس بلاک میں جایا جائے“  دونوں ڈاکٹر صاحبان کی رائے میں ”خدا کرے کہ اس معاملے میں کلیریٹی نہ آئے“ میرے خیال میں کلیریٹی آ جانے کے بعد اگر درمیان میں رہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا اسکا فائدہ یہ ہوگا کہ اچانک کوئی بڑافیصلہ کرنیکی مشکل سے نجات مل جائیگی وزیر اعظم عمران خان اگر چہ کہ کئی مرتبہ امریکہ مخالف جذبات کا اظہار کر چکے ہیں مگر امریکہ سے اسلام آباد آنے والے مہمانوں کا سلسلہ جاری ہے انکی پذیرائی میں بھی ایک کلیریٹی موجود ہے لہٰذا ڈاکٹر صاحب کی تھیوری کے برعکس اسلام آباد میں اضطراب کی صورتحال نہیں ہے بلکہ ایک ایسی کلیریٹی موجود ہے جسے فی الحال ظاہر نہیں کیا جا رہا۔ دیگر ممالک بھی اس نوعیت کے فیصلے کر چکے ہیں لہٰذا ‘’ نئی گریٹ گیم“  جو کہ مذکورہ پروگرام کا ٹائٹل ہے کے مدار سے دنیا بہت آگے جا چکی ہے۔رہی بات اضطراب کی تو یہ ہمیشہ موجود رہا ہے یہ چند گذارشات تھیں جنہیں محض اسلئے بیان کر دیا کہ ضروری مسائل پر رائے دینے سے احتراز بخیلی کے زمرے میں آتا ہے۔