حب الوطنی 

چند دنوں کی بات ہے‘میں ایک پروگرام دیکھ رہا تھا کوئی ڈاکٹر تھے‘کمپیئر نے پوچھا کہ آپ یہ بتائیں کہ آپ کی زندگی کا کوئی بہت مشکل آپریشن تھا؟ تو انہوں نے کہا‘ ایک آپریشن بہت مشکل تھا جس نے بہت زیادہ وقت لیا اور میری بہت زیادہ توجہ لی اور میں بہت سٹپٹایا‘میں اپنے سرجری ہسپتال میں تھا کہ اچانک وہاں پر ایک اپاہج آدمی کوجو ابھی اپاہج ہوا تھا کوئی ایک آدھا گھنٹہ قبل اسے چارپائی پر ڈال کر لائے وہ ایک نوجوان تھا جس کی دونوں ٹانگیں ایک تیز دھار  آلے سے کٹ گئی تھیں میں حیران تھا کہ میں اس کا کیا کروں اس کے فوراً ہی بعد دو آدمی‘بھاگے بھاگے آئے اور انہوں نے کہا کہ جی اس کی دونوں ٹانگیں مل گئی ہیں مشین میں کام کرتے ہوئے اس کی دونوں ٹانگیں ران سے نیچے کٹ کر دور جاگری تھیں تو یہ واقعہ اور یہ سانحہ گزرا تھا پاکستان سٹیل ملز میں ایک کوئی بڑا تیز چکر گھوم رہا تھا کٹاؤ دار جس میں وہ کام کرتے ہوئے قریب آیا تھا کسی کام کی غرض سے وہ مزدور بڑا ذہین‘بڑا قابل اور بہت سمجھدار تھا‘لیکن وہ ا سکی لپیٹ میں آگیا‘اور لپیٹ میں آتے ہی اس کی دونوں ٹانگیں کٹ گئیں اور بہت دور جاگریں اور اس کے ساتھیوں نے تلاش کرلیں اور وہ اس کو ڈاکٹر صاحب کے پاس لے کر آگئے تو ڈاکٹرصاحب نے کہا کہ وہ میرے لئے بڑے امتحان کا وقت تھا وہ جو اس کے دوسرے ساتھ مزدور تھے انہوں نے ہمیں بتایا کہ جب ہم اس کو چار پائی پر لے کر چلے ہیں تو وہ صاحب جوتھے جن کا نام شکور تھا وہ تھوڑے سے ہوش میں تھے اس نے اپنے ساتھیوں کو بلا کر کہا کہ مشین بند نہ کرنا کیونہ اگر یہ مشین ایک دفعہ بند ہوگئی تو اسکے چلانے میں دس لاکھ کا خرچہ اٹھتا ہے تو اس مشین کو بالکل بند مت کرنا میں نہیں چاہتا کہ میرے ملک کو یا میرے اس کارخانے کو کوئی نقصان پہنچے تو اس کے بعد وہ نیم بے ہوشی میں چلاگیا۔کئی سال کی بات ہے‘ میرے پاس ایک سائیکل ہوتی تھی جو پٹرول سے چلتی تھی اور وہ بڑی طاقتور تھی‘ ایک دفعہ میں آرہا تھا تو سنٹرل جیل کے پاس ایک نوجوان تھا‘ اس نے مجھے روکا‘ وہ بشرٹ پہنے تھا‘ پاؤں میں اس کے چپل تھی اور پرانی وضع کی ایک جینز پہنے ہوئے تھا‘ کہنے لگا، میں بہت مشہور جیب تراش ہوں‘ میں نو مہینے کی سزا پوری کرکے اب گھر جا رہا ہوں‘ میں نے کہا، اچھا پھر تو آپ بڑے معزز آدمی ہیں‘ جب آپ نے شرافت کے ساتھ دیانت داری کے ساتھ یہ سارا واقعہ سنایا ہے‘آپ بیٹھیں‘ وہ پیچھے بیٹھ گیا تو ہم چلتے رہے‘ جب ہم فیروز پور روڈ پر وہاں پہنچے جہاں فیروز پور روڈ آگے جاکرلٹن روڈ میں تبدیل ہوجاتی ہے تو وہاں پر جاکر اس نے کہا، آپ ادھر سے چلیں ٹمپل روڈ کی طرف سے‘ میں ادھر چلا آگے‘ درمیان میں پہنچے‘ اس سڑک پر تو سپاہی کھڑا تھا سیٹی بجا کے روک لیا‘ تو اس نے کہا، یہ تو ون وے ہے‘ میں تو آپ کا چالان کروں گا‘ میں نے بڑی ان کی منت خوشامد کی کہ آپ چالان نہ کریں‘ وہ جوتھا میرا ساتھی، وہ بھی اتر کے کھڑا ہوگیا‘ اس نے کہا، سنتری بادشاہ جانے دیں‘ یہ کیا ہے، غلطی ہوگئی ہم سے، پتا نہیں تھا‘ کافی بحث و مباحثے کے بعد اس نے کاپی نکالی‘ کاربن رکھا اور میرا نام پوچھ کے لکھ کے چالان کرکے پھاڑ کے کاغذ مجھے دے دیا اور کاربن اگلے کاغذ کے نیچے رکھ کے وہ کاپی جو تھی، اپنی بشرٹ کی جیب میں ڈال لی‘ اب وہ جو میرا ساتھی تھا، جس کو میں پیچھے بٹھاکے لا رہا تھا، وہ بے چارہ ظاہر ہے بڑا پریشان ہوا کہ میری وجہ سے یہ ہوا“ وہ میرا ساتھی اس کے گلے لگ کے جپھی ڈال کے پھر کھسک کے نیچے پاؤں میں بیٹھ گیا‘ پاؤں سے پھر اونچا اٹھا، پھر اس کو دئیے خدا کے واسطے‘ اس نے پرے دھکیل دیا تو اس نے کہا، ٹھیک ہے، تمہاری مرضی‘ کوئی بات نہیں‘ سپاہی نے بتا دیا کہ فلاں مجسٹریٹ کی عدالت میں بدھ کے روز حاضر ہونا ہے‘ جب میں بھاٹی پہنچا تو اس نے کہا‘میں آپ کا بڑا شکر گزار ہوں‘ آپ نے بڑی محبت کے ساتھ، محنت کے ساتھ اور بڑی دید کے ساتھ مجھے یہاں تک پہنچایا‘ میں نے کہا، کوئی بات نہیں اور اس نے کہا، میں آپ کی خدمت میں کیا شکرانہ پیش کروں اور پھر اس نے جیب سے نکال کر سپاہی کی کاپی مجھے دے دی‘ وہ جس کے اوپر چالان لکھتے ہیں نا‘ جس میں نیا کاربن بناکے رکھا ہوا تھا جس میں میرے بھی چالان کی نقل تھی‘ یہ آپ کی‘ جب وہ جپھی ڈال رہا تھا، اس کے نیچے اوپر ہو رہا تھا‘ اب گرہ کٹ بھی کمال کا تھا‘ انہوں نے کہا‘ جی میری یہ یادگار آپ رکھیں۔(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)