بہترین دوست

بادشاہ کو بڑا غصہ آیا کہ ہم نے حکم دیا اور ہمارے حکم کی تعمیل نہ ہوئی! اہالی موالی فوراً بول اٹھے‘ سرکار! یہ تو بڑی گستاخی کی بات ہے ساری مملکت پر آپ کا حکم چلتا ہے کوئی بھی ہوا سے آپ کا حکم ملتے ہی حاضر ہو جانا چاہئے دوبارہ حکم بھیجا جائے کہ سب کام کاج چھوڑ کر فوراً حاضر ہو جاؤ!بادشاہ نے کہا تم لوگ ٹھیک کہتے ہو! ہوا یہ کہ اس نے شاہی پروانچی سے کہا۔۔ جاؤ فلاں کو بلا لاؤ! جنہیں بلایا گیا وہ اس دور کے بہت بڑے عالم تھے پڑھنے لکھنے میں لگے رہتے اور جی حضوری سے بچتے کبھی کوئی خاص بات ہوتی تو بادشاہ سے ملنے چلے جاتے ورنہ گھر بیٹھے رہتے۔ بے لوث آدمی تھے جب بھی جاتے حق بات کہتے کتنا ہی مجبور کیا جاتا کسی غلط بات کی تائید کرتے نہ درباری مکروہات میں شریک ہوتے۔ ملازم جب ان کے گھر پہنچا تو وہ پڑھنے میں مشغول تھے پاس بہت سی کتابیں رکھی تھیں کچھ دائیں کچھ بائیں کچھ آگے تھیں ایک کتاب ہاتھ میں تھی جس میں وہ کھوئے ہوئے تھے پروانچی کے پہنچنے کی اطلاع ہوئی تو اسے بلا لیا وہ آیا تو پوچھا کیا بات ہے؟ اس نے کہا بادشاہ سلامت نے آپکو یاد کیا ہے۔عالم نے جواب دیا۔ بادشاہ سلامت سے میرا سلام کہنا اور عرض کرنا کہ اس وقت میرے پاس بڑے لائق و فائق دوست بیٹھے ہیں ان سے باتیں کر رہا ہوں جب ان سے فارغ ہو جاؤں گا تو انشاء اللہ آپ کے پاس آ جاؤں گا۔پروانچی لوٹا تو بادشاہ نے پوچھا‘ وہ آ رہے ہیں؟ ملازم نے عرض کیا۔۔ نہیں اور ان کا جواب کہہ سنایا۔بادشاہ نے پوچھا‘وہ کون سے لائق فائق دوست ان کے پاس بیٹھے تھے کہ انہوں نے ہمارے بلاوے کو ٹال دیا؟ پروانچی نے کہا۔۔ سرکار اللہ گواہ ہے وہ تو اکیلے بیٹھے ہوئے تھے میں نے کسی کو وہاں نہیں دیکھا۔ اب تو بادشاہ کو غصہ آگیا۔ اہالی موالی نے غصہ اور بڑھا دیا۔ بادشاہ نے کڑک کر حکم دیا۔۔ جاؤ ابھی اسی وقت انہیں ساتھ لاؤ جس حال میں ہوں وہ اسی طرح حاضر ہو جائیں! کسی عنوان نہ چھوڑنا تاکید ہے اور سخت تاکید!اس مرتبہ پروانچی کے ساتھ کچھ اور آدمی بھی پہنچے ساری تفصیل کہہ سنائی تو مجبوراً ان بزرگ کو اٹھنا پڑا۔ نظر پڑتے ہی بادشاہ نے پوچھا۔ وہ کون لائق و فائق لوگ تھے جو آپ کے پاس بیٹھے تھے؟ ان کی یہ ہمت کہ انہوں نے آپ کو ہمارے ہاں آنے سے روک دیا۔ابن طبا طبا نے الفخری میں لکھا ہے کہ انہوں نے جواب میں تین شعر پڑھے مطلب ہے۔۔ میرے یہ ساتھی ایسے ہیں جن کی باتوں سے میں کبھی نہیں اکتاتا چاہے ساتھ ہوں چاہے ساتھ نہ ہوں وہ بھروسے کے قابل اور سچے دوست ہیں وہ علم بانٹتے ہیں‘ عقل سکھاتے ہیں‘ اخلاق سدھارتے ہیں اور بڑے سے بڑا بنا دیتے ہیں اگر آپ انہیں مردہ کہیں تو جھوٹ نہ ہوگا زندہ کہیں تو یہ بھی سچ ہوگا۔بادشاہ سمجھ دار آدمی تھا علم و ادب کا قدرداں بھی تھا فوراً بات کی تہہ کو پہنچ گیا۔ اسے بڑا افسوس ہوا کہ وہ درباریوں کی باتوں میں آگیا علم شاہوں کا بھی سرتاج ہوتا ہے جو علم اور اہل علم کی قدر نہیں کرتا وہ بد نصیب ہے مہلب بن ابی صفرہ ایک بہت بڑا مدبر اور جرنیل تھا۔ اس نے ایک مرتبہ اپنی اولاد کو نصیحت کی تو بولا۔۔ میرے بچو! اگر تمہیں بازار میں کہیں رکنا پڑے تو وہاں رکو جہاں ہتھیار فروخت ہوتے ہوں یاوہاں جہاں کتابیں ملتی ہوں متبنی نے بھی یہی بات کہی ہے اس کے شعر کا مطلب ہے عزت کا سب سے اونچا مقام گھوڑے کی پیٹھ ہے اور زمانے میں بہترین دوست کتاب ہے۔(روشنی سے ماخوذ)