مشہور براڈ کاسٹر اور کئی کتابوں کے منصف رضا علی عابدی نے برصغیر میں کتابوں کے گمشدہ ذخیروں کے حوالے سے ایک دستاویزی پروگرام کیا جس کو بعدازاں کتابی شکل دی گئی۔”کتب خانہ“ کے نام سے اس کتاب میں رضا علی عابدی لکھتے ہیں کہ اس روز ہم جامعہ عثمانیہ کے کتب خانے کے سیر کر رہے تھے‘ وقت تیزی سے گزر رہا تھا اور کتب خانہ اتنا بڑاہے کہ اسے دیکھنے اور اسکے رموز سمجھنے کیلئے سارا دن درکار تھا‘ ریفرنس اسسٹنٹ فاطمی صاحب ہمیں اپنے کتب خانے کا ایک ایک شعبہ دکھا رہے تھے‘ میں نے ان سے درخواست کی کہ ہمیں جلد فارغ کردیں کیونکہ یہاں سے ہمیں دائرہ المعارف بھی جانا ہے‘ دائرہ المعارف‘ حیدر آباد دکن کا وہ شاندار ادارہ ہے جو بہت عرصے سے عربی علوم پر نہ صرف تحقیق کر رہا ہے بلکہ اس دور میں بھی‘ جب برصغیر سے عربی کا علم اٹھتا جارہا ہے یہ دائرہ المعارف اپنی تحقیق کی بناء پر آج تک نئی نئی کتابیں شائع کر رہا ہے میں نے جو کہا کہ دائرہ المعارف دیکھنا چاہتا ہوں فاطمی صاحب بولے کہ آیئے میں آپ کو دائرہ المعارف دکھائے دیتا ہوں‘ مجھے ہمراہ لے کر وہ کتب خانے کے پچھلے حصے کی جانب چلے‘میں سمجھا کہ کسی کھڑکی سے مجھے دائرہ المعارف کی عمارت دکھادیں گے مگر سب سے آخری الماری کے سامنے پہنچ کر انہوں نے ایک خانے میں قرینے سے چنی ہوئی تقریباً پچاس کتابیں دکھائیں جو بہت عمدہ حالت میں رکھی تھیں جیسے پڑھنے والوں نے ان کے ورق ہاتھوں سے نہیں بلکہ پلکوں سے پلٹے ہوں‘ کہنے لگے‘ یہ ہے دائرہ المعارف کی مطبوعات کا پورا سیٹ جو حیدرآباد دکن کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے کے سب سے بڑے کتب خانے میں رکھا ہے لیکن آج تک ان کتابوں کو پڑھنے ایک شخص بھی نہیں آیا نہ کسی نے یہ کتابیں دیکھنے کو مانگیں اور نہ گھر لے جانے کو جاری کرائیں یہ ہے دائرہ المعارف: ہندوستان کے کتب خانوں کا المیہ یہ بھی ہے عربی فارسی کا علم اب بس تھوڑے دنوں کامہمان ہے اوپر سے غضب یہ کہ تاریخی کتب خانے عربی اور خاص طورپر فارسی کتابوں سے بھرے پڑے ہیں جب پڑھنے والے نہیں رہیں گے تو پھر یہ کتابیں کیوں رہیں گی؟ جامعہ عثمانیہ میں بڑی روشن‘ کشادہ‘ جیتی جاگتی لائبریری ہے جس میں اب پونے چار لاکھ کتابیں ہیں وہاں اردو‘ فارسی اور عربی کی چھپی ہوئی تین ہزار اور قلعی دو ہزار کتابیں موجود ہیں لیکن وقت کی دوڑ میں یہ ذخیرہ اور یہ زبانیں اب دوسری زبانوں سے پیچھے رہی جاتی ہیں‘ جامعہ عثمانیہ میں یہ کتابیں تو ہیں مگر ان کے ہونے سے کبھی وہ جو اک رعنائی خیال تھی وہ اب کہاں؟ جیسا کہ پروفیسر گوپی چندنارنگ نے کہا۔ عثمانیہ یونیورسٹی لائبریری میں بھی بہت بڑا ذخیرہ ہے لیکن آپ کو معلوم ہے کہ عثمانیہ یونیورسٹی کاکردار‘ اورینٹل اسٹڈیز اور علوم اسلامیہ کے معاملے میں یا اردو تحقیق کے معاملے میں اب وہ نہیں رہا جو مولوی عبدالحق کے زمانے میں ہوا کرتاتھا یا جس زمانے میں وہاں دارالترجمہ تھا جس میں وحید الدین سلیم تھے اور کسی زمانے میں علی بلگرامی تھے اور دوسرے حضرات تھے جنہوں نے کتنا مہتمم بالشان کام کیا‘ ظاہر ہے کہ اب وہاں اردو کا ایک معمولی شعبہ ہے اور وہاں کتابوں کے ذخائر سے جتنا استفادہ ہو سکتا ہے شاید نہیں ہو رہا ہے اور اب تذکرہ اس عظیم الشان ذخیرے کا جو سالار جنگ میوزیم لائبریری کہلاتا ہے اور حیدرآباد دکن کی موسیٰ ندی کے کنارے محرابوں اور گنبدوں سے آراستہ ایک عمارت میں ہر اس شخص کیلئے کھلا ہے جسے علم کی جستجو ہے یہ کتابیں حیدرآباد کے اس گھرانے نے جمع کی تھیں جس کے ہونہار فرزند ریاست کے وزرائے اعظم مقرر ہوا کرتے تھے‘ سالار جنگ خانوادے نے سواتین سو سال پہلے یہ قیمتی کتابیں جمع کرنے کا کام شروع کیا‘ سالار جنگ اول میرتراب علی خاں نے اسے باضابطہ کتب خانے کی شکل دی ان کے بیٹے میر لائق علی خاں نے اس میں دنیا کی نایاب کتابیں شامل کیں اور پھر ان کے پوتے میر یوسف علی خان‘ سالار جنگ سوئم نے اسے اتنی ترقی دی کہ لوگ انہی کو اس کتب خانے کا بانی کہتے ہیں‘ میر یوسف علی خان صرف23 برس کی عمر میں ریاست حیدرآباد کے وزیراعظم بنائے گئے مگر اس کام میں ان کا جی نہ لگا‘ صرف تین سال بعد وہ وزارت عظمیٰ چھوڑ کر اپنی دلچسپی کے میدان میں جاپہنچے‘انہیں دنیا کے مختلف علاقوں میں سفر کرنے اور نایاب کتابیں‘ نادر چیزیں جواہر اور تاریخی یادگاریں جمع کرنے کا شوق تھا دیکھتے دیکھتے انہوں نے اپنے محل کو عجائب گھر بناڈالا اور ان کا یہ میوزیم اور ان کا یہ کتب خانہ آج بھی ان کے نام کو زندہ رکھے ہوئے ہے‘ کتب خانہ سالار جنگ میں ہاتھ سے لکھی ہوئی عربی‘ فارسی‘ اردو اور ترکی کتابوں کی تعداد نوہزار سے زیادہ ہے یہاں صرف قرآن مجید کے تقریباً چار سونسخے ایسے ہیں کہ ان کی زیارت سے دل نہیں بھرتا‘ مغلوں سے پہلے کے چودھویں صدی کے خط گلزار میں لکھے ہوئے ایسے ایسے قرآن ہیں جن کے اوراق پر معلوم ہوتاہے گلزار کھلے ہیں‘ ایک قرآن صرف پندرہ صفحوں پر مشتمل ہے اور اگرچہ باریک خط ہے مگر بآسانی پڑھا جا سکتا ہے‘کتب خانہ سالار جنگ کے ذخیرے کی ایک اور دولت اس کے مصور نسخے ہیں جن میں گزرے وقتوں کی مصوری کے شاہکار ہیں مثلاً ایک کتب کے بارے میں جس پر کتب خانے کو بجا طورپر ناز ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات