رضا علی عابدی ماریش پر انگریزوں کے قبضے کے باوجود فرانس کے لوگوں کی وہاں کی معیشت پر قبضے کی داستان وہاں کے ایک شہری قاسم ہیرا کے توسط سے لکھتے ہیں‘قاسم ہیرا علی گڑھ کے تعلیم یافتہ ہیں‘ ان کے والد بڑے اچھے مصور تھے اور شیشے کی پشت پر نہایت عمدہ روغنی تصویر بناتے تھے جو فریموں میں آراستہ آج تک ان کے چھوٹے سے آرام دہ مکان کے ہر کمرے اور راہ داری میں لگی ہیں۔ ہیرا صاحب یہ جہازی بھائی کون تھے“ میرا یہ پوچھنا تھا کہ تاریخ کے دفتر کھل گئے۔
ہوا یہ کہ ماریش میں سب سے پہلے عرب آئے یہ چھٹی صدی کے وسط کی بات ہے ان کے بعد واسکوڈی گاما ادھر سے گزرا‘ پھرپرتگالی آئے‘ اس کے بعد ولندیزی آئے‘ نہر سوئز تو اس وقت تھی نہیں ہندوستان اور مشرق بعید جانے والوں کو راس امید کا چکر کاٹ کرادھر ہی سے گزرنا پڑتاہے۔ولندیزیوں نے اس جزیرے پر اپنا جھنڈا گاڑا اور یہاں کی زمین سے دولت اگانے کیلئے باہر سے غلام لانے شروع کئے۔ وہ ملایا سے جاوا سے مڈغاسکر سے اور سب سے بڑھ کر ہندوستان سے غلام لاتے انہوں ہی نے نساؤ کے شہزادہ مارلس کے نام پراس جریرے کا نام ماریش رکھا۔ ظالم بہت تھے لہٰذا غلاموں پرمظالم توڑنے شروع کئے۔ ظلم جب بہت بڑھا تو اس جزیرے کی تاریخ میں پہلی بار غلاموں کی بغاوت ہوئی آخر تنگ آ کر ولندیزی اس جزیرے کو چھوڑ گئے اور یہ کہتے ہوئے گئے کہ یہاں چوہے بہت ہیں‘ سارا غلہ کھا جاتے ہیں۔میں نے بات کاٹتے ہوئے کہا…… مجھے یقین ہے ولندیزیوں کے بعد یہاں انگریز آئے ہوں گے۔ جی نہیں‘ نئی نئی زمینوں پر قبضے جمانے کی دوڑ میں فرانس والے ان سے آگے تھے 1715ء میں فرانسیسی جہاز اپنے جھنڈے لہراتے ہوئے ان ساحلوں پر لگے اور اب جوانہوں نے ہماری زمین پر قدم رکھا تو وہ قدم آج تک جما ہواہے انہیں چوہوں نے‘ غلاموں نے اورانگریزوں نے سب نے پریشان کیا سلطنت برطانیہ نے انہیں شکست دے کر ماریش ان سے چھین لیا مگر ان زمینوں‘ان فصلوں‘ ان ملوں اوران کارخانوں پر آج تک فرانسیسی نسل کے باشندوں کا غلبہ ہے۔
رضا علی عابدی ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ یہ میانوالی کا قصہ ہے‘مجھے وہاں سے ایک نو عمر طالب علم خط لکھا کرتا تھا لکھتا تھا کہ مجھے ہوائی جہازوں کا دیوانگی کی حد تک شوق ہے ٗ میں ہوائی جہازوں کا انجینئر بننا چاہتا ہوں‘اسکا یہ اشتیاق دیکھ کر میں نے اسے لندن سے ہوائی جہازوں کے بارے میں ایک اچھی سی کتاب بھیج دی اور پھر میں بھول بھال گیا‘ البتہ میانوالی پہنچتے ہی مجھے اس نوجوان کا خیال آیا مگر مجھے تو اب اس کا نام تک یاد نہیں تھا‘ صرف اسکے محلے زادے خیل کا نام یاد رہ گیا تھا۔میں نے اپنے میزبانوں کو یہ ساری بات سنائی اور کہا کہ جی چاہتا ہے کہ جا کر اس سے ملوں اور اس کی ہمت بڑھاؤں‘وہ لوگ بولے کہ محلہ زادے خیل یقینا موجود ہے مگر لڑکے کا نام یاد نہیں تو وہ کیسے ملے‘میں نے کہا کہ مجھے اس محلے میں لے چلئے ٗمیں اس مخلوق کو جانتا ہوں جس سے زیادہ محلے کا حال کوئی اور نہیں جانتا۔اب جو ہم چلے تو میزبانوں کا قافلہ ساتھ ہو لیا۔ اتنے میں محلہ زادے خیل آگیا‘میرے قافلے والے ہر آتے جاتے بزرگ سے پوچھتے لگے۔ ”یہاں کوئی نوجوان رہتا ہے جسے ہوائی جہازوں کا شوق ہے؟اس محلے میں کوئی لڑکا رہتا ہے جو ہوائی جہازوں کے پیچھے دیوانہ ہے‘سارے بزرگ نفی میں گردنیں ہلاتے رہے۔اس وقت میری نگاہیں ان لوگوں کو ڈھونڈ رہی تھیں جن سے کسی گلی کسی محلے کا حال چھپا نہیں رہتا۔نو عمر لڑکے!اچانک بارہ بارہ تیرہ تیرہ سال کے تین لڑکے نظر آئے جو ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جھومتے چلے جا رہے تھے میں لپک کر ان کے پاس گیا اور بولا کہ بیٹے! اس محلے میں کوئی لڑکا رہتا ہے جسے ہوائی جہازوں کا بے حد شوق ہے؟میرا یہ پوچھنا تھا کہ بچوں نے میری انگلی پکڑی اور لے جاکر ایک مکان کے سامنے کھڑا کر دیا اور بولے’یہاں رہتا ہے وہ۔“ہم سب نے بڑے اشتیاق سے دستک دی۔ امید تھی کہ ایک شاہین صفت ٗہونہار ٗسعادت مند لڑکا برآمد ہوگا اور مجھے اپنے سامنے کھڑا دیکھ کربے حد خوش ہوگا وہ تو نہیں آیا۔ دروازے پر اس کی والدہ آئیں۔میں نے اپنے آنے کا مدعا بتایا‘وہ بولیں:”شہزاد؟وہ تو سرگودھا چلا گیا ہے“میں نے پوچھا کیوں؟کہنے لگیں:اسے ائیرفورس کے سکول میں داخلہ مل گیا ہے ایک دو برس میں وہ ہوائی جہازوں کا انجینئر ہو جائے گا۔ہے……واقعی باکمال لوگوں کا شہر ہے۔