چھپا خزانہ

 برصغیر میں گمشدہ کتب خانوں کی تلاش میں در در کی خاک چھاننے والے رضا علی عابدی اپنی کتاب”کتب خانہ“ میں حیدر آباد دکن کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حیدر آباد میں کتابوں کا ایک اور ذخیرہ جو اردو اور خاص طور پر دکنی ادب کی تاریخ میں جگہ پائے گا وہ ہے ادارہ ادبیات اردو کا کتب خانہ۔ اس کتب خانے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں صرف کتابیں ہی نہیں بلکہ ادب نوازوں اور علم دوستوں کا خون پسینہ بھی شامل ہے۔ مخطوطات میں حضرت خواجہ بندہ نواز کا ”چکی نامہ“ اورشیخ اشرف کی ”نو سر ہار“ یہاں موجود ہے۔ برصغیر میں جب اردو کی نئی نئی طباعت شروع ہوئی تو اس وقت کی کتابیں ادارہ ادبیات میں اُردو میں موجود ہیں۔ پرانے اخباروں کے فائل ہیں۔ 1814میں ہنری مارٹن مرزا فطرت نے انجیل کا جو اردو ترجمہ کیا وہ یہاں محفوظ ہے۔ مگر ان کتابوں میں اس خون اور اس پیسنے میں اب کچھ آنسو بھی شامل ہوا چاہتے ہیں۔ اس کے بارے میں پروفیسر گوپی چند نارنگ نے کہا ”اسے ڈاکٹر محی الدین قادر نے قائم کیا تھا، خدا انہیں جنت نصیب کرے کیونکہ انہوں نے کوئی چار پانچ ہزار اردو، فارسی اور عربی کے مخطوطے اور اردو فارسی قدیم تذکرے ارو دکنی ادبیات کے تمام پرانے دواوین، کلیات اور نثر کی داستانیں اور ایسی ہی کتابیں جمع کی تھیں، ادارہ ادبیات اُردو کیلئے انہوں نے ذاتی گرہ سے زمین خریدی‘ ادارہ بنایا، اسے چلایا لیکن ا ن کی بے وقت موت سے اب اس ادارے میں وہ کام نہیں ہورہا جو کسی زمانے میں اس سے توقع کی جاتی تھی۔ چار پانچ جلدوں میں تذکرہ مخطوطات اور ادارہ ادبیات اُردو چھپاہوا ہے اوراس میں سب سے بڑا ذخیرہ قطب شاہی اورعادل شاہی زمانے کے ادیبوں، شاعروں اور مصنفوں کا ہے۔ ان کے علاوہ شاہی فرامین اور اس عہد کی تاریخی دستاویزات اور سرکاری، قانونی،عدالتی اور ریاست کے کاغذوہاں محفوظ ہیں اور چونکہ اب وہاں نگرانی کا ٹھیک انتظام نہیں اس سے استفادہ بھی کم ہوتا ہے۔ اور اس کا دائرہ وسیع نہیں ہے۔ اس لئے تشویش ہوتی ہے۔ ظاہر ہے جب مہتمم ہی نہیں اور مالی اعانت اچھی نہیں تو بہت سی چیزیں گم ہورہی ہیں اور بہت سے ذخیرے کو دیمک کھا رہی ہے۔ تو نتیجہ اس کا کیا نکل سکتا ہے، اس کا تصور آپ کرسکتے ہیں۔“حیدر آباد دکن میں کتابوں کاایک خزانہ ایسا بھی ہے کہ اگر دنیا کے سامنے آگیا تو دور حاضر کی آنکھیں چکا چوندھ ہو جائیں گی اور وہ ہے نظام دکن، میر عثمان علی مرحوم کے خاندان کاکتب خانہ، یہ کتب خانہ آصف جاہ اوّل سے ورثے میں چلا آتا ہے اور اب نظام کی کنگ کوٹھی میں بند ہے۔کسی کو خبر نہیں کہ اس میں کیسے کیسے جواہر پارے بند ہیں۔ میر عثمان علی خان مرحوم کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ جس کتب خانے میں جاتے تھے وہاں کی بہترین کتابیں عاریتاً لے آتے تھے اور پھر ان کتابو ں کوواپس جاتے کسی نے نہیں دیکھا۔ان کے کتب خانے میں کیا کیا نہیں چھپا ہوگا۔ مگر وہ چونکہ بند ہے اس لئے قیاس آرائیوں اور افواہ طرازیوں کے دروازے کھلے ہیں، کوئی کچھ کہتاہے اور کوئی کچھ بتاتا ہے مگر ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ خدا کرے وہ سب جھوٹ ہو۔ ہم سوچتے ہیں کہ جس روز کنگ کوٹھی کا کتب خانہ کھلے گا اس روز دروازہ خاور کھلے گا۔ ہم کیسے نادان ہیں کیسی کیسی باتوں سے اپنا جی بہلاتے ہیں۔ ہوا یہ کہ میں نے کراچی میں مرزا ظفر الحسن کو خط لکھا اور پوچھا کہ آپ ابن انشاء لائبریری کھول رہے تھے، اس کا کیا بنا؟ جواب آیا ٹائیں ٹائیں فش۔ مطلب یہ کہ بہت دوڑ دھوپ کی، بڑی درخواستیں دیں، کچھ اور کھول رہے ہوتے تو کبھی کا کھل گیا ہوتا مگر چونکہ لائبریری کھولنا چاہتے تھے ارباب اختیار کے ایک کان سے دوسرے تک ایک سوراخ کھل گیا۔ ابن انشاء جیسے شخص کا نام وابستہ ہوا بھی تو نارتھ ناظم آباد کی ایک چھوٹی سے سڑک سے اور سننے میں آتا ہے کہ لوگ اس کا نام مٹا ڈالنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کراچی کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ کتابوں کی کتنی بری دولت پورے برصغیر سے سمٹ کر وہاں پہنچی ہے اور کسی کو خبر نہیں کہ کون سے خستہ حال مکان میں کیسے کیسے نادر نسخے آج تک اپنے محسنوں کے منتظر ہیں۔