قابل دید کتب خانہ

برصغیر میں گمشدہ کتب خانوں کی تلاش میں در  در کی خاک چھاننے والے رضا علی عابدی اپنی کتاب”کتب خانہ“ میں لکھتے ہیں کہ بڑے کتب خانوں میں سے ایک لیاقت میموریل لائبریری  ہے جہاں یوں تو ایک لاکھ لیکن مشرقی علوم کی تیس ہزار کتابیں ہیں انجمن ترقی اردو کے کتب خانہ خاص اور کتب خانہ عام میں ایسا ذخیرہ ہے جس کی نظیر نہیں ملتی پھر پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی کا اپنا کتب خانہ ہے آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس کی اپنی لائبریری  ہے جو بہت گراں قدر ہے اسکے علاوہ اہل علم حضرات نے سٹیٹ بینک آف پاکستان اور نیشنل بینک میں کتب خانوں کے پودے لگائے تھے جو اب تناور درخت بن چکے ہیں خالق دینار ہال کی لائبریری بہت قدیم تھی تھیوسوفیکل ہال کا ذخیرہ بھی بہت پرانا تھا شاید اب بھی ہوگا سنٹرل سیکرٹریٹ کی لائبریری صدر میں نہایت عمدہ اور موزوں مقام پر اتنی ہی نفیس عمارت میں ہوا کرتی تھی نہ معلوم کس کے  جی میں کیا آئی اسے اٹھاکر شہید ملت روڈ کے بازار کی بالائی منزل میں بٹھا دیا  اب وہاں کوئی تماشائی تک نہیں آتا باغ جناح کی لیاقت ہال لائبریری جو1852ء کی فریرہال لائبریری کی ورثے دار ہے کہتے ہیں کہ اب خوب نکھر رہی ہے‘ دو تازہ کتب خانوں نے کراچی میں علم کے چراغ جلائے ہیں اس دور میں جب بڑے بڑے نئے نئے کتب خانے کھولنے کیلئے آدمی یا تو صاحب ثروت ہو یا سرپھرا ہو‘ کراچی شہر کو دو نئے کتب خانے کھلنے کا شرف ملا ہے‘ ان میں سے ایک غالب لائبریری ہے جس کو اب چشم بدور بارہواں برس لگا ہے اسکی نچلی منزل میں اگر چہ بینک ہے مگر اسکی بنیادوں میں مرزا ظفر الحسن کا گاڑھا پسینہ ہے غالب لائبریری میں ادبی موضوعات پرپندرہ ہزار کتابیں جمع کی جاچکی ہیں جن میں ایک ہزار سے زیادہ کتابیں نادر‘ نایاب اور کمیاب ہیں اسی طرح رسالوں کی تعداد پچاس ہزار ہے جن میں سے بعض ستراسی سال پرانے ہیں رسالوں کے خاص نمبر جمع کرنے میں غالب لائبریری کو ملکہ حاصل ہے چنانچہ غزل نمبر‘ ناول نمبر‘ آپ بیتی نمبر وغیرہ اتنے بہت سے ہیں کہ کسی نے ٹھیک ہی کہا کہ اس معاملے میں یہ بہت نمبری لائبریری ہے‘ غالب لائبریری کے دو شعبے بہت دلچسپ ہیں ایک میں ممتاز ادیبوں کے خطوط محفوظ کئے جارہے ہیں اور دوسرے میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ڈرامے جمع ہو رہے ہیں جو اتنے بہت سے ہیں کہ مستقبل کا محقق تنگ آجائے گا تحقیق کرتے کرتے۔ کراچی کا دوسرا نیا کتب خانہ ہمدرد لائبریری ہے جو ناظم آباد میں ہمدرد فاؤنڈیشن کی عمارت کے وسیع ہال میں قائم کی گئی ہے اور لائبریری کے جدید اصول پر ترتیب دی گئی ہے کسی نے گلہ کیا کہ وہاں ہر قسم کی کتابیں بھرلی گئی ہیں لیکن یوں نہیں ہے اگرچہ حوالے کیلئے ہر موضوع کی نمائندگی ہے لیکن ہمدرد لائبریری اسلامیات‘ طب‘ سائنس‘ عمرانیات‘ ادب اور تاریخ وسوانح کیلئے  مخصوص ہے اس میں تقریباً سات سو مخطوطے ہیں اور قلمی نسخوں اور نادر کتابوں کی خریداری کا سلسلہ جاری ہے‘ ہمدرد لائبریری میں ایک شعبہ ایسا ہے جس میں قرآن مجید کے ترجمے جو دنیابھر کی زبانوں میں شائع ہوتے رہے ہیں جمع کئے جارہے ہیں پٹنہ کی خدا بخش لائبریری کی طرح ہمدرد لائبریری  ایک اور دلچسپ کام یہ کر رہی ہے کہ مصنفوں کی کتابوں کے اصل مسودے اپنے ہاں محفوظ کر رہی ہے جو تحقیق میں بہت کام آئینگے اور اب ہم آتے ہیں کراچی کے ذاتی کتب خانوں کی طرف یہاں سے میری گفتگو میں افتخارعارف بھی شریک ہیں جنہوں نے علم کی جستجو میں سینکڑوں دروازے جھانکے ہیں انہوں نے کہا ”ادبی کتابوں کا جو ذخیرہ میری نظر سے گزرا ہے کہ جہاں جاکر انسان کا جی چاہتا ہے کہ بیٹھا رہے وہ مشفق خواجہ صاحب کا ذخیرہ ہے وہ نہایت حلیم الطبع ہیں اور ہمارے بزرگ دوست اور کرم فرما بھی ہیں مشفق خواجہ صاحب کے پاس بے انتہا اچھا اور منتخب ذخیرہ ہے کیونکہ وہ خود محقق ہیں اور ورثہ دار ہیں ایک بڑے محقق کے‘ انکے کتب خانہ دیکھنے کے قابل ہے یگانہ کی بہت سی چیزیں انکے پاس جمع ہیں۔