گمشدہ کتب خانوں کی تلاش 

برصغیر میں گمشدہ کتب خانوں کی تلاش میں در در کی خاک چھاننے والے رضا علی عابدی اپنی کتاب”کتب خانہ“ میں لکھتے ہیں کہ کراچی میں کتابوں کا جوذخیرہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے وہ برصغیر کے سرکردہ عالم اور محقق سید محمد بیدری کے نام نامی سے منسوب ہے اس کابڑا حصہ وہ اپنے ہمراہ ہندوستان سے لے آئے تھے اردو کے استاد پروفیسر محمد ایوب قادری نے بھی نادر کتابوں کابڑا ذخیرہ کیا اور کتنی ہی کتابیں انہوں نے اپنے ہاتھ سے نقل کیں‘ افتخار عارف نے کہا”خالد اسحاق کا نام ہمارے بہت مشہور قانون دانوں میں شمار ہوتا ہے کوئی اسلامی کتاب ایسی نہیں جو دنیا میں کہیں چھپی ہو اور وہ ان کے پاس موجود نہ ہو خاص طور پر حدیث‘ تاریخ اور فقہ پر جتنا اچھا انتخاب خالد اسحاق کے ہاں ملے گا وہ ذرا کم کم دیکھنے میں آئے گا“ سندھ کے بہت بڑے عالم دین حضرت مولانا دین محمد وفائی کا عظیم الشان کتب خانہ تھا وہ اب انکے ورثاء کے پاس ہے علی نواز وفائی کے پاس بھی اچھا ذخیرہ ہے جی الانہ بہت ابتدائی دنوں میں‘ جب قلمی نسخوں کی قدر نہ تھی سندھ کے دور دراز علاقوں میں جاکر مخطوطے خریدتے تھے الانہ صاحب کا ذاتی کتب خانہ بہت موقر اور معتبر ہے پیر حسام الدین راشدی مرحوم کا کتب خانہ یوں شاندار تھا کہ کتابوں کابڑا ورثہ تو خاندان میں چلتا ہوا ان تک پہنچا اور خود انہوں نے بھی بے شمار کتابیں جمع کیں اسی طرح پیر علی محمد راشدی کا کتب خانہ بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کریم بخش خالد بھی شاندار کتابوں کے ذخیرے کے مالک ہیں۔ افتخار عارف نے کہا ”مجھے حضرت علامہ رشید ترابی اعلیٰ مقام کا کتب خانہ دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے نہایت عمدہ بہت منتخب اسلامی تاریخ کا کتب خانہ تھا پھر فلسفے پر کتابیں الگ‘ ان کو ادبیات سے بھی بہت شغف تھا اس کی الگ کتابیں ان کے پاس بڑا عمدہ انتخاب تھا“ اسی نوعیت کی کتابیں حضرت مولانا مصطفی جوہر کے کتب خانے میں ہیں حضرت مولانا مہدی پویا مولانا یوسف بنوری مفتی محمد شفیع اور مولانا اختتام الحق تھانوی کا شمار اکابرین میں ہوتا ہے ان سب کے ذاتی ذخیرے تھے عربی ادب کے دور حاضر کے سب سے بڑے علماء میں ہمارے علامہ عبدالعزیز میمنی سرفہرست ہیں۔ ان کا بہت عظیم الشان کتب خانہ تھا اسی طرح علامہ خلیل عرب بھی بڑے بھاری کتب خانے کے مالک تھے مولانا عبدالقدوس  ہاشمی کا ذاتی ذخیرہ ایسا ہے کہ محقق اس میں نہ جائے تو تحقیق کے کتنے ہی گوشے تاریک رہ جائیں۔ افتخار عارف نے کہا پھر ایک اور سلسلہ ہے جیسے ہمارے حکیم نصیر الدین صاحب اور محمود احمد برکاتی صاحب یہ دو بزرگ ایسے ہیں جن کے ہاں نہ صرف طب پر بلکہ فلسفے پر بھی بہت سی کتابیں مل جائیں گی۔ خاص طور پر بیدل پر جتنا ذخیرہ آپ کو مولانا حسن مثنیٰ ندوی صاحب اور حکیم نصیر الدین صاحب کے ہاں ملے گا وہ میں نہیں سمجھا کہ برصغیر میں اور کسی فرد واحد کے پاس ملے۔