برصغیر میں گمشدہ کتب خانوں کی تلاش میں در در کی خاک چھاننے والے رضا علی عابدی اپنی کتاب”کتب خانہ“ میں لکھتے ہیں کہ لکھنؤ کے ٹوریاگنج سے چل کر‘ اونچی نیچی‘ تنگ اور پرپیچ گلیوں سے گزر کر‘ کشمیری محلے سے ہوتے ہوئے ہم ایک پرانی عمارت میں داخل ہوئے سامنے ہی گلی میں کھلنے والی بڑی سی کھڑکی کی روشنی میں ایک بزرگ بیٹھے تھے بڑھاپے نے انہیں کمزور کردیا تھا گردن اور ہاتھوں میں رعشہ تھا بس یہ وہ عمر تھی جب انسان کو زندگی کے بکھیڑے چھوڑ کر‘ عمر بھر کی تھکن کے بعد خوب بہت سا آرام کرنا چاہئے مگر وہ بزرگ اپنی عمر سے بھی چار پانچ گنا عمر کی ایک کتاب پر جھکے‘ اس کی پرانی اور بوسیدہ جلد کو درست کر رہے تھے‘ یہ لکھنؤ کے نادرآغا تھے جن لوگوں کو پرانی اور کمیاب کتابوں کی خریدوفروخت سے ذرا سی بھی دلچسپی ہے وہ نادر آغا صاحب سے اچھی طرح واقف ہونگے تقریباً اسی برس پہلے ان کے والد نے اس وقت کے رنگوں میں نہائے اور خوشبوؤں میں رچے بسے لکھنؤ میں پرانی کتابوں کا کاروبار شروع کیا تھا نادر آغا کو ان ہی سے یہ کاروبار اور پرانی کتابوں کو سنوارنے کا فن ورثے میں ملا مگر یوں لگتا ہے کہ اس سلسلے کی بس وہ آخری کڑی ہیں اسکے بعد ان کے گھرانے میں اس کے بعد انکے گھرانے میں اس کاروبار کو ختم ہی سمجھئے‘ پہلی بات جو ہم نے نادر آغا صاحب سے پوچھی وہ یہ تھی کہ پرانی کتابوں کی قدر کس زمانے میں زیادہ رہی آج کے دور میں یا اگلے وقتوں میں؟ نادر آغا نے ایک چھوٹے سے وقفے میں سب کچھ کہہ سنایا مخصوص لکھنوی لب ولہجے میں کہنے لگے‘ مرزا رسوا کے یہاں ایک شام دوستوں کی نشست تھی سب بیٹھے تھے کہ پرانی کتابوں کا تاجر ایک کتاب لے کر آیا مرزا صاحب نے دام جو پوچھے تو ایسے دام تھے جو مرزا صاحب کی سمجھ میں نہیں آئے کتاب واپس کردی لیکن کتب فروش کو جانتے تھے تو گھر آئے بیوی سے کہا اپنے سونے کے کڑے دے دو اور ان کو جدا کیا جدا کرکے وہ کتاب تاجر سے جاکرلی دوسرے دن مرزا صاحب کے یہاں پھر نشست ہوئی تو دوستوں سے کہنے لگے کہ میں نے وہ کتاب لے لی دوستوں نے کہاکہ کیسے؟ دام تو اسے کے اتنے زیادہ تھے مرزا صاحب کہنے لگے ہاں کڑے کی جوڑی بیچ کے خریدی ہے جوڑی تو دستیاب ہو جائے گی مگر کتاب نہیں ملے گی تو یہ قدر کا عالم تھا لوگ اس اس صورت سے حصول کتب کیلئے یہ جدوجہد کرتے تھے‘ یہ واقعہ سنا کر انہوں نے حقے کا ایک کش لیا اور ہم نے بڑے ادب سے پوچھا کہ آپ پرانی کتابوں کا یہ کاروبار کتنے عرصے سے کر رہے ہیں؟ کہنے لگے پیتالیس برس سے یہ خاکسار اس کام میں لگا اور عزت سے آج تک نبھ گئی کل کا حال نہیں معلوم‘ اسکے بعد بات چلی تو ذکر نکلا کہ پرانی اور قیمتی کتابوں کے تاجر کو گلی کوچوں سے‘ پرانے رئیسوں کی حویلیوں سے‘ نوابوں کی ڈیوڑھیوں سے اور راجوں کے راجواڑوں سے قدیم کتاب کتنی مشکل سے ملتی ہوگی؟ اس پر نادر آغا بولے بڑی مشکل سے ملتی ہے اور اس سے زیاد ہ مشکل سے بکتی ہے سمجھے جناب؟ قرض بکتی ہے عجیب و غریب باتیں ہیں کیا آپ سے کہیں؟ کہاں تک کہیں؟ مثال کے طورپر ایک یونیورسٹی نے ان سے کچھ پرانی کتابیں منگوائیں یہ کتابیں بڑی محنت سے جمع کی گئی تھیں اور قیمتیں بھی زیادہ نہیں تھیں یہاں سے یہ داستان سرخ فیتے میں جکڑ جاتی ہے وہ سرخ فیتہ جس میں حالات نے ایک غریب تاجر کیلئے بھوک‘ افلاس اور قرض کی گانٹھیں ڈال دی تھیں نادر آغا اپنے کاروبار اور اپنے مصائب کے بارے میں کہنے لگے”ہے تو اتنی خدمت کہ انہی کتابوں سے سینکڑوں فیضیاب ہوتے ہیں نہ معلوم کوئی کہیں سے کوئی کہیں سے ہم فراہم کرتے ہیں سال دو سال کے بعد فہرست مرتب کرتے ہیں پھر ادھر ادھر بھیجتے ہیں اب اس یونیورسٹی سے چیک آیا ہے ایک سال گیارہ مہینے کے بعد‘ اور اسے داخل کئے ہوئے آج ایک مہینہ بائیس دن ہوئے ہیں آٹھ دن پیشتر تک کی خبر یہ ہے کہ بینک والوں نے کہا کہ اب ہم ریمائنڈر بھیجیں گے آپ دس دن بعد خبر لیجئے بینک والوں نے تو یہ کہہ دیا اب ہم کھائیں کیا؟ لہٰذا اقتصادی حالت ایسی ہے اور وہ کشمکش ہے کہ بیان نہیں کیا جا سکتا ظاہر ہے کہ قرض لیجئے گا ہم نے نادر آغا صاحب سے پوچھا کہ آدھی صدی کے اس کاروبار میں آپ کو کوئی ایسا زمانہ بھی یاد ہے جب بڑے بڑے رئیسوں اور امیروں کے گھروں کی کتابیں سڑکوں پر بکنے آئی ہوں؟ کہنے لگے بدنصیب رجواڑوں کے کتب خانے کوڑیوں کے مول بکے‘ مثلاً راجہ حسن پورہ‘ راجہ سلیم پور‘ راجہ جہانگیر آباد کا یہی ہوا جہانگیر آباد کی کتابوں کا بہت برا حشر ہوا۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ پرانی کتابوں کے جن تاجروں سے میں ملا ان سے میں سے زیادہ تر کو خود بھی تحقیق اور حصول علم میں مصروف پایا کوئی خود بھی مصنف ہے کوئی اعلیٰ درجوں کے طالب علموں کو تحقیق میں مدد دے رہا ہے کوئی خود اعلیٰ معیار کی تحقیق کر رہا ہے یہی حال نادر آغا صاحب کا دیکھا پینتالیس برسوں میں جتنی بھی نایاب اور شاندار کتابیں ان کے ہاتھ لگیں پہلے انہوں نے خود ان کتابوں پر اچھی خاصی تحقیق کی اور اپنے رجسٹروں میں ہر کتاب کا احوال لکھتے گئے اس طرح اب تک ان کے پاس جو بیسیوں رجسٹر تیار ہیں وہ ڈاکٹریٹ کے بڑے بڑے مقالوں سے زیادہ بیش قیمت اور کارآمد ہیں۔
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات