برصغیر میں گمشدہ کتب خانوں کی تلاش میں در در کی خاک چھاننے والے رضا علی عابدی اپنی کتاب ”کتب خانہ“ میں لکھتے ہیں کہ یہ وہ کتابیں ہیں جو آج ہیں اور شاید کل نہ ہوں اور یہ ان بے شمار کتابوں کے مزار ہیں جو خاک کی صحبت میں رہتے رہتے خود بھی خاک ہوگئیں ایسی خاک جس سے اب کوئی شگوفہ نہیں پھوٹے گا‘ یہ اس قافلے کا ذکر ہے جسکے قدموں کے زیادہ ترنشان مٹ چکے ہیں لیکن جو باقی ہیں وہ اتنے کم بھی نہیں کہ سمتوں اور منزلوں کا پتہ نہ چلے گفتگو ہماری یہی ہے کہ اب جیسے بھی بنے ان نشانوں کو نئے شعور کے دامنے سے یوں ڈھانپ لیا جائے کہ اب نہ کوئی جھونکا ادھر سے گزرے اور نہ پگڈنڈیوں پر نئی گھاس اُگے۔ یہ قدیم کتابوں اور دستاویزوں کو مٹنے سے بچانے کی اُمنگ کا ذکر ہے‘ پرانی کتابوں کی بات1975ء کے شروع میں یوں چھڑی تھی کہ بی بی سی لندن کی اردو سروس نے اس وقت”کتب خانہ“ کے عنوان سے پہلا سلسلے وار پروگرام نشر کیا تھا وہ برطانیہ میں محفوظ پرانی اردو کتابوں کا تعارف تھا ایک عام تاثر یہ تھا کہ یہ کتابوں سے بیزاری کا دور ہے اور یہ کہ کتابوں کی باتیں بس گنے چنے لوگ سنیں گے مگر وہ قیاس صحیح نہ تھا برصغیر کے ہر گوشے اور قریے میں کتابوں کی باتیں دلچسپی سے سنی گئیں پروگرام کی حمایت میں آنے والے خطوں کا تانتا بندھ گیا اور یوں لگا کہ قدیم کتابوں کے بارے میں جو ہم نے کہا گویا ہر ایک کے دل میں پہلے سے تھا وہ پروگرام14ہفتوں کیلئے شروع کیا گیا تھا لیکن14 مہینے چلا اور اس کا بند ہونا بے شمار سننے والوں کی خفگی کا باعث بنا‘ لیکن شکایتوں کے خطوں میں کچھ حکایتیں بھی چھپی ہوئی تھیں کتنے ہی سامعین کو اندازہ نہ تھا کہ خودبرصغیر میں کیسے کیسے عظیم الشان کتب خانے موجود ہیں جن کی الماریوں میں سلیقے سے چنی ہوئی نایاب کتابیں کب سے اپنے قاری کی منتظر ہیں اس پر بی بی سی کو خیال آیا کہ کیوں نہ اسی عنوان سے ایک نیا پروگرام ترتیب دیا جائے موقع پر جاکر تحقیق کی جائے اور دیکھا جائے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی پہاڑیوں سے لے کر مدراس کے ساحلوں تک اور بنگال کے سبزہ زاروں سے راجستھان کے ریگ زاروں تک قدیم کتابیں کہاں کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں‘ اس تحقیق کا شرف مجھے ملا موضوع پسندیدہ ہو تو صعوبتوں کا احساس مٹ جاتا ہے چنانچہ ہوا یہ کہ میں نے بہت کونے جھانکے کسی میں نور بھرا تھا اور کہیں اندھیروں کا راج تھا کہیں کتابیں بچائی جارہی تھیں اور کہیں کیڑوں کی غذا بن رہی تھیں ان سب کا احوال جمع کیا تو کتب خانہ ہی کے عنوان سے پروگرام کا دوسرا سلسلہ تشکیل ہوا یہ1982ء کے اوائل کی بات ہے اس تحقیق کو ریڈائی گفتگو بننے میں آدھا برس لگا اور یہ پروگرام اُسی سال اکتوبر سے شروع ہوئے اور چھ ماہ چلے بات اب کے ذرا مختلف تھی اور دل کو ایک دھڑکا سا تھا لیکن یہ پروگرام بھی بہت مقبول ہوا اور اتنا سراہا گیا اور اتنی توجہ سے سناگیا کہ اس پر سامعین کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے کم ہوگا۔
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات