انیسویں صدی کا قصہ

سفرنامے میں منظرکشی ایک خوبصورت رنگ بھر دیتی ہے معروف صحافی رضا علی عابدی اپنے ماریشس کے سفرنامے میں ایسی ہی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ایک میں ہی کیا‘ سارے مسافر کھڑکی سے باہر یوں دیکھنے لگے کہ کہیں کوئی منظر نگاہوں میں محفوظ ہونے سے رہ نہ جائے۔ کوئی مخروطی پہاڑوں کو دیکھ رہا تھا‘ کوئی جا بجا بہتے ہوئے چشموں کو۔ کسی کی نگاہ جھیلوں پر تھی اور کسی کی نظر دور دور تک پھیلے ہوئے گنے کے کھیتوں پر۔ مگر میری آنکھوں نے ان کھیتوں کے بیچ ایک نیا منظر دیکھا ہر کھیت میں پتھروں کے اہرام کھڑے تھے۔ دو دو تین تین اہرام۔ کہیں ایک قطار میں کہیں بے ترتیبی سے۔ طیارہ نیچا ہونے لگا تو وہ اور قریب اور صاف نظر آنے لگے‘ کسی نے پتھر چن چن کر دس بیس نہیں‘ سو پچاس نہیں‘ہزاروں اہرام تعمیر کئے تھے۔ میں نے بیتاب ہوکر اپنے برابر بیٹھے ماریشس کے باشندے سے پوچھا۔ ”یہ کیا ہیں؟“ فوراً ہی جواب مل گیا۔ ”پتھر“ پھر میں ہوائی اڈے پر اترا اور اپنے میزبانوں کی کار میں بیٹھ کر شہر کی جانب چلا تو راستے بھر گنے کے کھیت بھی چلے۔ ان کھیتوں میں بھی وہی اہرام کھڑے تھے‘میں نے کسی سے پوچھا۔ ”یہ کیا ہے؟“ اب کے ذرا تفصیل سے جواب ملا۔ ”کسی زمانے میں یہ کھیت تیار کئے گئے ہوں گے‘ اس وقت مٹی سے جو پتھر نکلے ان کے ڈھیر لگا دئیے گئے۔“ میں ہوٹل پہنچا تو ایک نوجوان نے میرا سامان میرے کمرے میں پہنچایا۔ بھلا سا ہونہار نوجوان تھا۔ ”کیا نام ہے تمہارا“ میں نے اپنی ٹائی کھولتے ہوئے پوچھا ”کریم بلا“۔ ”کہاں کے رہنے والے ہو؟‘ ’یہیں۔ ماریشس کے۔‘ میں نے اپنا ایک جوتا کھولتے ہوئے پوچھا۔ ’کریم بلا۔ کچھ تمہیں پتہ ہے یہ ماریشس کے کھیتوں میں بڑے بڑے وزنی پتھروں کے اہرام کس نے بنائے تھے؟‘ ’ہاں پتہ ہے‘ میں ڈوری کھولتے رک گیا اور پوچھا ’کس نے؟‘ ’جہازی بھائیوں نے۔‘ میں نے دوسرا جوتا کھولتے ہوئے پوچھا اور اس بار میرے سوال میں سوال کم اور حیرت زیادہ تھی۔ ”کس نے؟‘ ’جہازی بھائیوں نے۔ میرے دادا کے دادا نے۔‘ میں نے اپنا سوٹ کیس کھول کراس میں سے سلیپر نکالتے ہوئے پوچھا ’کون تھے تمہارے دادا کے دادا؟‘ ’بلا صاحب۔ کلکتے سے چلے تھے۔ ان کے جہاز کا نام شاہ عالم تھا۔ جون 1885ء کو یہاں ماریچ پہنچے تھے۔“ ”ماریچ؟“ ہاں‘ وہ لوگ اس جزیرے کو ماریچ کہتے تھے۔ اس نوجوان نے بتایا کہ میرے دادا کے دادا 9جون کو ماریشس پہنچے تھے اس وقت ان کی عمر انیس سال تھی مسلمان تھے قد چھوٹا تھا ماتھے پر زخم کا نشان تھا ان کے والد کا نام تاجو تھا غازی پور کے رہنے والے تھے21جون 1899ء کو مرے تھے اب تک لال سیاہی سے لکھا ہوا ہے۔ میں اس کی باتوں میں کھوگیا اور سلیپر پہننا بھول گیا ’کہاں لکھا ہے کہ لال سیاہی سے؟ تمہیں اپنے دادا کے دادا کی اتنی اتنی سی تفصیل کیسے معلوم ہوئی؟ سب رجسٹروں میں لکھی ہوئی ہے 75 برس میں ساڑھے چار لاکھ مزدور جہازوں میں بھر بھر کر بمبئی‘مدارس اور کلکتے سے یہاں لائے گئے بندرگاہ پر اتار کر وہ قطاروں میں کھڑے کر دیئے جاتے تھے گورے لوگ بڑے بڑے رجسٹر کھول کر بیٹھتے تھے اور ہمارے بزرگوں کے بارے میں یہ تمام باتیں درج کرتے تھے خوشنویس گوروں کے لکھے ہوئے وہ سینکڑوں رجسٹر آج تک محفوظ ہیں کہاں ہیں وہ؟ مہاتما گاندھی انسٹیٹیوٹ میں آپ ضرور دیکھئے دیکھنے کی جگہ ہے ہم جتنے ہندوستانی یہاں آباد ہیں سب کے باپ دادا کا حال اور ذات پات کا حال وہاں درج ہے بلکہ جو لوگ کیمرہ آنے کے بعد آئے ان سب کی تو تصویریں بھی رجسٹروں میں چپکی ہوئی ہیں ذرا جا کر دیکھئے‘جہازی بھائی تھے وہ؟ ہاں ان کے رنگ روپ الگ تھے دین اور مذہب الگ تھے بولیاں جدا تھیں لہجے مختلف تھے سب ایک ہی جہاز میں ٹھونس دیئے جاتے تھے دوچار روز انہیں چپ لگی رہتی تھیں بالآخر بولتے تھے تو آپس میں ایک دوسرے کو جہازی بھائی کہہ کربلاتے تھے‘تو تمہارے دادا کے دادا کا نام بلا تھا؟ جی ہاں آپ دل میں ہنس رہے ہوں گے اس نام پر‘مگر ہم لوگوں کو ہنسی نہیں آتی میرے دوستوں کے بزرگوں کے نام بھی ایسے ہی تھے کسی کا نام پیرو تھا کسی کا منگلی‘کوئی کرموتھا اور کوئی گودڑ ہم نے یہی نام آج تک سینے سے لگا رکھے ہیں بلکہ غضب تو یہ ہے کہ جو کچھ گورے محرر کی سمجھ میں آیا اس نے لکھ دیا ہم نے نہ صرف وہ نام بلکہ وہ ہجے بھی قبول کرلئے ہیں بس اب یہی ہمارے نام ہیں ہم ان پر شرمندہ نہیں کریم بلا کی بات یہیں تک پہنچی تھی کہ اس کا ایک ساتھی اسے دھونڈتا ہوا آگیا۔