گذرے سال کے ڈھلتے سورج کے سائے میں جنگ کے بھڑکتے شعلوں کی بات کرنے کے علاوہ بھی تو بہت کچھ کہا جا سکتا ہے افغانستان کیلئے ایک ارب ریال اور لاکھوں ڈالر کی امداد کے مژدۂ جاں فزا کی برکھا میں نہال بھی تو ہوا جا سکتا ہے ستاون اسلامی پانچ یورپی ممالک‘ امریکہ‘ چین اور روس کی اسلام آباد کانفرنس میں شرکت کوئی معمولی بات نہیں اس جشن میں شامل ہوا جا سکتا ہے دیکھا جائے تو بیس برس بعد افغانستان میں امن قائم ہوا ہے سڑکوں اور بازاروں سے بارود کی بو نہیں آ رہی رات کی تاریکی میں گھروں کے دروازے نہیں توڑے جا رہے سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکی وزیر خارجہ نے اس بڑی کانفرنس کی کامیابی پر اسکے میزبان کو مبارکباد بھی دی ہے بے یقینی اور سرشاری کے اس عالم کی گرہ کشائی بھی کی جا سکتی ہے ضروری تو نہیں کہ اس جنگ نا تمام کی ہی بات کی جائے گذرتے ہوے سال کو کیوں نہ اچھی خبروں کی گل پاشی میں رخصت کیا جائے مگر اس کیلئے سوکھی ٹہنیوں اور زرد پتوں کے خوابیدہ ڈھیر کو مسلنا پڑیگا جن ہنستے بستے ملکوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا انہیں بھلادینا پڑیگا مشرق وسطیٰ کے کھنڈروں میں رہنے والے لاکھوں بھوکے بیمار اور ناتواں انسانوں کی آہوں اور سسکیوں کو نظر انداز کرنا پڑیگاشام‘ عراق‘ یمن‘ لیبیا اور افغانستان میں سسکتی بلکتی انسانیت کو اس خوش فہمی کی دھول میں دفن کرنا پڑیگا کہ جنگ ختم ہو چکی ہے اب یہ فریاد غیر ضروری ہے کہ جن کے بھائی باپ اور بیٹے اس جنگ کا ایندھن بنے انکے لئے یہ جنگ کبھی بھی ختم نہ ہوگی اب یہ سوچنے کی ضرورت بھی نہیں کہ اس بے کراں تباہی کی کوکھ سے جنم لینے والے لاکھوں یتیموں کیلئے یہ جنگ ہمیشہ جاری رہے گی اس کے بارے میں کہا گیا ہے
گذشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ تنہایاں بھی جل جائیں
گذشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں
بیس برس تک اس آگ پر تیل چھڑکنے والوں نے جسے چاہا بھسم کر ڈالاافغانستان کے دو چارشہروں کی لیپا پوتی کر کے انہیں ماڈل cities بنا دیا گیا مگر انکا میک اپ واپس جانے والے فوجی بوٹوں سے اٹھنے والی دھول کی دبیز تہوں میں گم ہو گیااب یہ شہر بھی اسی ویرانی کا نوحہ سنا رہے ہیں جو کل تک دیہاتوں کا مقدر تھا ایک بڑا عالمی ادارہ کئی دنوں سے دہائی دے رہا ہے کہ افغانستان معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے چار کروڑ کے ملک میں ایک کروڑچوراسی لاکھ لوگوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے 60 فیصد آبادی کو بھوک کا سامنا ہے 32 لاکھ بچے اور سات لاکھ حاملہ خواتین شدید غذائی قلت کا شکار ہیں غیر فعال صحت کا نظام‘ بیماریوں میں اضافہ اور کورونا وبا کا پھیلاؤ ایک بڑے انسانی المیے کو جنم دے رہا ہے چالیس ملین لوگ پہلے گولہ و بارود سے مر رہے تھے اب بھوک سے مر رہے ہیں مرگ انبوہ جشن دارد کے اس ماحول میں یہ تسلی دی جا رہی ہے کہ ستاون اسلامی ممالک بہت جلد افغان فنڈ قائم کر کے خیمہ‘ روٹی اور کمبل کا بندوبست کر دیں گے یوں پورے ملک کو ایک مہاجر کیمپ بنا دیا جائیگا اسلامی ممالک کی تنظیم کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل کونمائندہ برائے افغانستان مقرر کر دیا گیا ہے کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ یہ تنظیم بیس برس تک کہاں تھی ان ستاون ممالک میں سے چھپن کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ دو چار شہروں کو چھوڑ کرپورے افغا نستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے اس بات کو اس کانفرنس کی ایک بڑی کامیابی کہا جا رہا ہے کہ اسلامی ممالک کو اب افغانستان کے حالات سے آگاہی حاصل ہو گئی ہے سچ یہ بھی ہے کہ یہ اسلامی ممالک اگر عراق‘ شام‘ لیبیا اوریمن جیسے تباہ حال ہمسایوں کی داد رسی نہیں کر سکے تو ان سے افغانستان کو نظر انداز کرنے کا گلہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اتنا نہ پوچھا کہ اس خانہ خرابی کا اصل ذمہ دار کون ہے۔یہ کیا کم ہے کہ پندرہ دنوں کے اندر ہنگامی بنیادوں پر اتنی بڑی کانفرنس کا انعقادکر دیا گیا اسکا کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور نکلے گا امریکہ اسے ناکام نہیں ہونے دیگا جلد یا بدیر خیمے‘ روٹی اور کمبل کا بندوبست کر دیا جائیگااسکے ساتھ ہی انسانی حقوق کے تحفظ کا اہتمام بھی ہو جائے گا اس سینہ زوری کے بارے میں کہا گیا ہے۔
وہ شہریاربہت نرم دل تھا میرے لئے
چبھو کے نیزہ زمیں سے اٹھا لیا مجھ کو
میرے لئے اس کانفرنس کا دردناک پہلویہ ہے کہ افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی کو کانفرنس کے اختتام پر ایک بند کمرے میں چند ممالک کے مندوبین سے بات چیت کا موقع فراہم کیا گیا انکے ملک کے لئے یہ کانفرنس ہو رہی تھی مگر انہیں اس سے خطاب کا موقع نہ دیا گیا الٹا بھرے اجلاس میں انکے سامنے یہ منطق پیش کی گئی کہ افغان عوام کو انکی حکومت سے الگ کر کے دیکھا جائے امیر خان متقی نے یہ سب کچھ سنا اور خاموش رہے میں انکے صبر اور حوصلے کی داد دیتا ہوں اس مہمان کا تدبر ظاہر کرتاہے کہ جنگ جاری ہے ایک غنیم بپھرا ہوا ہے دوسرا خاموش ہے اسکے حق میں ہم اتنا تو کہہ سکتے ہیں۔
حساب در بدری تجھ سے مانگ سکتا ہے
غریب شہر مگر اتنا بے ادب بھی نہیں