گزرے وقتوں کی یادگار

مشہور مصنف اور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی  سندھ میں قدیم کتب خانوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سندھ کے دیہات اور قصبوں کی بات تو ہو چکی جہاں دینی مدرسوں میں قدیم کتابوں کے ایسے ایسے خزانے موجود ہیں کہ اگر انہیں بچایا نہ گیا تو ہمارے یہی آب و ہوا جن میں ہم جیتے ہیں ہمارے بزرگوں کی ان کتابوں کو مارڈالیں گے آج کیسفر میں ہم سندھ کے مختلف گھرانوں میں چلیں گے اور دیکھیں گے کہ لوگ اسے ورثے کو کس طرح سینے سے لگائے بیٹھے ہیں ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ کتنے ہی ذخیرے خاک ہوئے اور خواب ہوئے اور ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ کتنی ہی کتابیں ایسی ہیں جنہیں ہم دیکھ بھی نہیں سکتے‘ سندھ ہمیشہ علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے اور اسکے حکمراں عالموں کی سرپرستی کرتے رہے ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ  نہ صرف مدرسے بلکہ اہل علم کے گھرانے اور حکمران خاندانوں کی ڈیوڑھیاں آج بھی ایسی ایسی کتابوں سے بھری پڑی ہیں جن کے صفحوں پر حکمت و دانش بکھری ہوئی اور وہ بھی سونے چاندی کے پانی میں گھلی ہوئی۔ مغلوں کے عہد میں شہر ٹھٹھہ اتنا خوش حال اور آسودہ تھا کہ نہ صرف برصغیر بلکہ سمندرپار سے بھی ارباب علم و قلم کھنیچے کھنیچے ٹھٹھہ چلے آتے تھے لیکن جب مغلوں کا عروج اور دریا کا کنارہ دونوں اس شہر کو چھوڑ گئے تو یہ کھنڈر بن کر رہ گیا ایسے کھنڈروں کو کریدنے اور گزرے وقتوں کی یادگار نشانیاں نکال کر لے جانے والوں کی کمی نہیں چنانچہ ٹھٹھہ لٹتا رہا کہتے ہیں کہ وہاں بعض گھرانوں میں قدیم کتابیں اب بھی موجود ہیں مگر وہ لوگ اپنا یہ ورثہ دکھاتے ہوئے گھبراتے ہیں ایک اور مقام پر رضا علی عابدی لکھتے ہیں کہہر زبان کی اپنی تاریخ ہوتی ہے بعض زبانیں وقت او رحالات کے نتیجے میں جنم لیتی ہیں‘رضا علی عابدی ماریشس کے جزیرے کی زبان سے متعلق لکھتے ہیں کہ زبان کے معاملے میں ماریشس ایک بہت بڑی تجربہ گاہ ہے زبانیں کیسے جیتی ہیں‘ کیسے مرتی ہیں اورکس طرح اپنے روپ بدلتی ہیں اس کابھرپور مظاہرہ ماریشس میں ہوا ہے۔ یہ جزیرہ پہلے پہل اس تختی کی مانند تھا کہ جس پر نہ ملتانی مٹی پوتی گئی تھی نہ سیاہی کا ڈوبا لے کر قلم چلایا گیا تھا۔ اس جزیرے میں پہلے پہل کوئی نہیں رہتا تھا۔سب سے پہلے عرب آئے اور چلے گئے۔ ان کے بعد پرتگالی آئے مگر ان کا دل نہیں لگا۔ پھر ولندیزی آئے اور زمینوں سے فصلیں اگانے کے لئے جاوا‘ ملایا‘ ہندوستان اور افریقہ سے غلام لائے۔ ایک دنیا جانتی ہے کہ اس وقت قبضہ کرنے والی گوری قوموں میں یہی ولندیزی سب سے زیادہ ظالم تھے۔ انہوں نے غلاموں کو اس طرح رکھا ہوگا کہ وہ آپس میں مل نہ سکیں اورماریشس کی کوئی اپنی زبان وضع نہ ہو سکے۔ پھر فرانس والے پہنچے اور انہوں نے جزیرے کوباضابطہ کالونی بنا کر غلاموں سے کام لینا شروع کیا اور غالباً پہلی بار فرانسیسی آقاؤں اور سیاہ فام افریقی خادموں کے درمیان مکالمہ ہوا۔ وہی زمانہ تھا جب پھیلی ہوئی چپٹی ناکوں اور موٹے موٹے ہونٹوں والے غلاموں نے آقاؤں کی فرانسیسی بولی بولنے کی کوشش کی وہ جو زبان وجود میں آئی جسے کریول یا لنگڑی لولی فرنچ کہتے ہیں۔بس وہی ماریشس کی زبان بن گئی۔ پھر جب ہندوستان کی بندرگاہوں سے بھر بھر کر جہاز آنے لگے‘کوئی تامل بولتا ہوا آیا‘ کوئی بھوجپوری‘کسی کی زبان مرہٹی تھی اور کسی کی شستہ اردو‘ کچھ لوگ ملیالم بول رہے تھے اور کچھ بنگالی‘اس وقت زبان سازی کی قدرتی مشین میں حرکت شروع ہوئی‘ وقت نے‘ حالات نے‘ تقاضوں نے اور احتیاج نے رابطے کی زبان تراشنے کا عمل شروع کیا اورجیسے برف بنانے کی مشین سے بالآخر بڑی سی سلی بن کر نکلتی ہے اور پھسلتی ہوئی دورتک چلی جاتی ہے‘ اس طرح زبان سازی کی اس تجربہ گاہ سے وہی پھیلی ہوئی چپٹی ناکوں اور موٹے موٹے ہونٹوں والے غلاموں کی زخم خوردہ کریول نکلی جس کے زخموں پر بھوجپوری کے پھاہے رکھے تھے۔ وہی آج تک ماریشس کی زبان ہے۔