خدا بخش لائبریری پٹنہ کا تذکرہ کرتے ہوئے مشہور براڈ کاسٹر اور مصنف رضا علی عابدی اپنی لکھتے ہیں کہ خدابخش کے والد نے تو انہیں صرف14سو کتابیں سونپی تھیں پھر یہ پندرہ ہزار کیسے ہوگئیں؟ یہی سوال میں نے لائبریری کے ڈائریکٹر جناب عابد رضا بیدار سے کیا کہنے لگے یہ تو کچھ ایسا ہے کہ آدمی کو کسی بھی چیز کی لگن ہو پیاس چاہئے انسان کو شدت کی پیاس ہو تو شاید کنواں بھی پیاسے کے پاسآجائے یہ مثال کم سے کم ہمارے لئے تو سچ ثابت ہوئی کہ خدا بخش کے پاس کتابیں کھینچ کر آتی تھیں انہوں نے یہ بھی کیا کہ ایک عرب کو ملازم رکھا جسے اس زمانے میں وہ پچاس روپیہ مہینہ دیتے تھے انیسویں صدی کے اواخر میں پچاس روپے بہت بڑی رقم تھی وہ شخص ڈھونڈ ڈھونڈ کر کتابیں لاتا تھا اور اطلاعیں دیتا تھا کہ فلاں جگہ کتابوں کا ذخیرہ ہے آپ خود خط و کتابت کرلیجئے یہ اطلاع ہے تو اس طرح مصر‘ جاز‘ ایران عراق سے کتابیں ان کو ملتی تھیں ہندوستان بھر سے کتابیں ملتی تھیں ان کی کتابیں ایک بار چوری ہوگئیں کتاب فروش کے ہاں پہنچیں اس نے ان کو اطلاع دی کہ ہمارے پاس کچھ کتابیں بکنے آئی ہیں آپ خریدیں گے اس طرح وہ کتابیں پھر ان کے ہاں پہنچ گئیں اگرچہ قیمتاً پہنچیں۔ایک اور مقام پر اپنے تجربات اور مشاہدات کا تذکرہ کرتے ہوئے معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی لکھتے ہیں کہ مجھے کراچی سے کچھ دور ٹھٹھہ کے ایک گاؤں میں جانے کا اتفاق ہوا، گاؤں کے کچے پکے مکان تو اونچی جھاڑیوں کے گھیرے میں چھپے ہوئے تھے، ان کا مہمان خانہ گاؤں سے باہر بناہوا تھا جہاں سرشام چارپائیاں ڈال دی گئی تھیں، لوگ مجھے گھیرے بیٹھے تھے اور مزے مزے کی باتیں ہو رہی تھیں، کسی بات پر میں نے قہقہہ لگایا، بعد میں مجھے بتایا گیا کہ گاؤں کے اندر چارسال کاایک بچہ میرا قہقہہ سن کر چونکا اور ماں سے اپنی سندھی زبان میں کہا کہ وہ ریڈیو والا آگیا۔شاہین کلب کی چٹ پٹی باتوں میں سدھو بھائی کا حلوے کا شوق بہت رنگ بھرتا تھا، ان کے مکالموں میں حلوے کا ذکر ضرورآتا تھا۔ ہمارے ساتھی علی احمد خان جب بی بی سی لندن میں ملازم ہوکر آئے اور ان کے بچے بھی لندن آئے تو بچوں نے اپنے ابا سے پوچھا کہ کیا ہم سدھو بھائی سے مل سکتے ہیں، سدھو بھائی کو دعوت دی گئی، ان کیلئے مزے مزے کی چیزوں کے علاوہ بہت سا حلوہ پکایا گیا اور سدھو بھائی کے سامنے سجا دیا گیا، تب یہ بھید کھلا کہ وہ ذیابیطس کے مریض ہیں اور حلوہ یا کوئی بھی مٹھائی نہیں کھاسکتے۔بچوں نے حیران ہوکر پوچھا”سدھو بھائی، پروگرام میں وہ سب کہنے کی باتیں تھیں؟“کچھ جھینپ کر اور کچھ شرما کر بولے ”ہاں“۔ایسی شخصیت تھی ان کی۔ ان کا کمال مکالموں کی ادائیگی میں تھا، ان کی زبان میں ایک ذرا سی لکنت تھی جسے وہ اس خوبی سے چھپاتے تھے کہ ان کی باتوں میں ایک عجیب سا لطافت کا رنگ بھر جاتا تھا، اسی بناء پر لاکھوں سننے والوں کے چہیتے تھے۔ایک روز یہ ہوا کہ ان پر جنہیں ہم لوگ سدھو بھائی نہیں بلکہ شاہ صاحب کہتے تھے، فالج کا حملہ ہوا، انہیں ہسپتال پہنچایاگیا جہاں انہیں فالج کے تمام مریضوں کی طرح لٹالیاگیا اور وہ پروگرام سے غیر حاضر ہو گئے، ہم نے سننے والوں کو بتایا کہ سدھو پر فالج کا حملہ ہوا ہے اور وہ ہسپتال میں داخل کردیئے گئے ہیں۔یہ اعلان ہونا تھا کہ سننے والوں خصوصاً بچوں کے خطوں کا تانتا بندھ گیا، اتنی دعائیں، اتنی دعائیں کہ شمار کرنا دشوار ہوگیا ادھر ڈاکٹروں نے محسوس کیا کہ شاہ صاحب کی حالت سنبھل رہی ہے، شاہ صاحب دو تین مہینوں کے اندر صحت یاب ہو کر کام پر واپس آگئے، ڈاکٹر حیران رہ گئے کہ اتنی تیزی سے صحت یابی کیسے ہو گئی، شاہ صاحب ایک سال بعد طبی معائنے کیلئے ہسپتال گئے اور واپس آکر بتایا کہ جو مریض ایک سال پہلے داخل تھے وہ اب بھی داخل ہیں۔
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات