اشرف غنی کی ذمہ داری کا سوال

افغانستان کے سابق صدر نے 30 دسمبر کو بی بی سی ریڈیو فور کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ اگر چودہ اگست کو کابل سے رخصت نہ ہوتے تو انہیں‘ انکی اہلیہ اور انکے محافظین کو ہلاک کر دیا جاتا اوپانچ ملین لوگوں کے شہر میں بڑے پیمانے پر خونریزی ہوتی اس انٹرویو میں اشرف غنی نے کہا ہے کہ پندرہ اگست کو طالبان شہر کی طرف دو سمتوں سے بڑھ رہے تھے اور انکے پاس اپنی زندگی کا اہم ترین فیصلہ کرنے کیلئے صرف دو منٹ تھے سابقہ صدر نے کہا ہے کہ وہ کابل میں رہنے پر اصرار کر کے اپنی بیوی اور سکیورٹی گارڈز کی زندگیوں کو داؤ پر نہیں لگانا چاہتے تھے ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں معلوم ہے کہ اسوقت اٖفغانستان میں جو المیہ جنم لے رہا ہے اسکی تمام تر ذمہ داری ان پر ڈالی جا رہی ہے اشرف غنی نے جواب دیا کہ وہ تمام الزامات سے آگاہ ہیں اسی لئے وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس المیے کے اصل ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو ڈیڑھ برس تک طالبان سے مذاکرات کرتے رہے اور جنہوں نے انکی حکومت کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہوا تھا۔ سابقہ افغان صدر نے اس الزام کی سختی سے تردید کی کہ وہ لاکھوں ڈالر لیکر کابل سے فرار ہوے تھے۔ان سے کہا گیا کہ اسوقت افغانستان میں خوراک کی کمی کی وجہ سے دس لاکھ بچوں کی ہلاکت کا خدشہ ہے اور کئی لاکھ لوگوں کوایک وقت کی روٹی میسر نہیں دنیا اس صورتحال کی ذمہ دار اسلئے سابقہ صدر کو سمجھتی ہے کہ وہ اقتدار کی پر امن منتقلی سے قبل اچانک فرار ہو گئے تھے۔اس ریڈیو پروگرام کے ہوسٹ جنرل نک کارٹر (ریٹائرڈ) نے اشرف غنی سے پوچھا کہ کیا انہیں معلوم نہ تھا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان پر امن انتقا ل اقتدارپر بات چیت ہو رہی تھی اور وہ اگر کابل ہی میں رہتے تو آج صورتحال بہت مختلف ہوتی۔اشرف غنی نے کہا کہ زلمے خلیل زاد جوخصوصی امریکی مندوب تھے اور طالبان سے مذاکرات کر رہے تھے نے انہیں طالبان سے بات چیت کرنے کا موقع نہیں دیا۔ سابقہ صدر نے کہا کہ انکی مرضی کے برعکس ہزاروں طالبان قیدیوں کو رہا کر دیا گیاان قیدیوں نے بعدازاں کابل پر حملے میں حصہ لیا اشرف غنی نے موجودہ صورتحال کی ذمہ داری کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوے کہا کہ دوحہ مذاکرات مکمل طور پر ایک امریکی مسئلہ بن چکا تھا یہ افغان مسئلہ نہ تھا It became an American issue. Not an Afghan issue. They erased us. حقائق کے مطابق اکتوبر 2020 میں کابل حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت کا بندو بست کر دیا گیا تھا مگر دونوں طرف سے عدم تعاون کے الزامات کے بعد یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ اس دوران طالبان یہ مطالبہ کرتے رہے کہ اشرف غنی حکومت کو رخصت کر دیا جائے تا کہ ایک نئی حکومت کی بنیاد رکھی جا سکے اسکے جواب میں اشرف غنی کا کہنا تھا کہ وہ ایک منتخب صدر ہیں اسلئے وہ یہ مطالبہ تسلیم نہیں کر سکتے۔اشرف غنی کے اس انٹرویو کے بعد اسی ریڈیو سٹیشن کے ایک پروگرام میں سابقہ امریکی مندوب زلمے خلیل زاد نے یہ انکشاف کیا کہ چودہ اگست کو سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے اشرف غنی سے کہاتھا طالبان کیساتھ پر امن انتقال اقتدار کا معاہدہ طے پا گیاہے۔ خلیل زاد نے یہ بھی کہا کہ اشرف غنی نے اسے قبول بھی کر لیا تھا اس معاہدے کے تحت تیس اگست کو اشرف غنی نے ایک لویا جرگہ میں اقتدار منتقل کر دینا تھا جس نے بعد ازاں طالبان سے مذاکرات کر نے تھے۔ خلیل زاد نے بی بی سی کو بتایا کہ انہیں پندرہ اگست کو یہ جان کر سخت حیرانی ہوئی کہ اشرف غنی کابل چھوڑ کر جا چکے تھے۔تحیرات اور سوالات کا یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوتا زلمے خلیل زاد کے اس انکشاف کے بعد یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت تھی کہ پندرہ اگست کو اگر اشرف غنی کابل سے فرار نہ ہوتے تو طالبان انہیں ہلاک نہ کرتے اشرف غنی کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ انہیں سابقہ افغان صدر محمد نجیب اللہ کا انجام یاد تھا اسکا یہی مطلب ہے کہ انہوں نے اس خوفناک انجام سے بچنے کا پہلے سے ہی تہیہ کیا ہوا تھا  چودہ اگست کو انٹونی بلنکن نے اشرف غنی کو طالبان سے پر امن انتقال اقتدار کے جس معاہدے کی اطلاع دی تھی کیا وہ اس بات کی ضمانت تھی کہ طالبان صدارتی محل میں داخل نہ ہوں گے اور تیس اگست تک لویا جرگہ کا انتظار کریں گے پندرہ دن تک اپنے خاندان اور محافظین کو حملہ آور فوج کے رحم و کرم پر چھوڑنا ایک مشکل فیصلہ تھا امریکہ سب کچھ چھوڑ کر جا چکا تھا پندرہ اگست کو تمام فیصلے اشرف غنی نے کرخود کرنا تھے اس ایک دن کی بادشاہی میں اس نے وہی کچھ کیا جو ایک دن کے بادشاہ کیا کرتے ہیں کہتے ہیں کہ اڑتی چڑیا محفوظ گھونسلے تلاش کرتی ہے اور پھر اس طرح کے لمحات کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وقت کو ماتھے کے بالوں سے پکڑنا ہوتا ہے شیکسپیئر کے ڈرامے جولیس سیزر کے ایک ڈرامائی سین میں بروٹس اپنے ساتھی Cassius سے کہتا ہے We must take the current when it serves or lose our venture ہمیں ابھرتی ہوئی لہر کیساتھ بہنا ہو گا یا پھر ہمارا منصوبہ ناکام ہو جائیگا رومن سلطنت کی تاریخ کے ان ہنگامہ خیز لمحات میں جن کا ذکر شیکسپئیئر نے ”جولیس سیزر“  کے چوتھے ایکٹ کے تیسرے سین میں کیا ہے مارکس بروٹس نے Gaius Cassius اور کئی دوسرے رومن سینیٹرز کیساتھ ملکرجولیس سیزر کو قتل کر دیاہوتا ہے ایک بپھرا ہوا ہجوم محل کے باہر جمع ہوتا ہے اسوقت جولیس سیزر کا وفادار جرنیل مارک انٹونی ایک پر جوش خطاب کر کے ہجوم کو قاتلوں کے خلاف قائل کر چکا ہوتا ہے ایسے میں بروٹس اور Cassius بھاگ نکلتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کی مدد سے رومن سلطنت کے مشرقی حصے پر قبضہ کر لیتے ہیں۔بعد ازاں مارک انٹونی دونوں کو شکست دے کر پوری رومن سلطنت کا بادشاہ بن جاتا ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو افغانستان کے دارالسلطنت میں بھی دشمن داخل ہو رہے تھے اس وقت کے حکمران کے پاس یہی راستہ بچا تھا کہ وہ ابھرتی ہوئی لہر کے ساتھ بہہ کر جان بچا لے یا پھر اپنے آپ کو ہجوم کے حوالے کر دے ہم اشرف غنی کوجان بچا کر بھاگنے کا الزام دے سکتے ہیں اور آج کے افغانستان میں انسانی المیے کی ذمہ داری بھی اسکے کاندھوں پر ڈال سکتے ہیں مگر بیس برس تک اس ملک پر بزور شمشیرحکمرانی کرنے والوں پر بھی اس تباہی کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یا نہیں۔