معروف براڈ کاسٹر اور مصنف رضا علی عابدی پرانے کتب خانوں کی تلاش میں نکلنے کی روداد میں لکھتے ہیں کہ اب صورت حال یہ ہے کہ جتنی بھی پرانی کتابیں ہیں اوپر سے دیکھنے میں وہ چاہے وہ کتنی ہی اچھی حالت میں نظر آئیں،لیکن اگر ان کی دیکھ بھال سائنسی طریقوں سے نہیں ہورہی ہے تو سمجھئے کہ اب ان کا چل چلاؤ قریب ہے۔جو لوگ باشعور ہیں وہ اپنی اس میراث کو جو در حقیقت پورے معاشرے کی میراث ہے،اب ایسے اداروں کو دے رہے ہیں جہاں ان کتابوں کو مٹنے سے بچایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ کراچی کے نیشنل میوزیم اور حیدر آباد کے سندھی ادبی بورڈ، انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی اور صوبائی میوزیم میں کافی کتابیں پہنچ رہی ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف سندھا لوگجی نے کتابوں کو بچانے اور محفوظ کرنے کے جدید سائنسی طریقے اختیار کئے ہیں۔ دسمبر 1981ء میں وہاں قدیم دستاویزوں کے تحفظ کا ایک تربیتی کورس اور سیمینا رہوا تھاجس میں تربیت دینے کیلئے لندن سے انڈیا آفس لائبریری نے اپنے ایک ماہر کو حیدر آباد بھیجا تھا۔ ان تمام کوششوں کو دیکھ کر ان لوگوں کی ہمت بندھی ہے جواپنے باپ دادا کی کتابیں کہیں محفوظ رکھنے کے خواہش مند تھے۔ سندھ کے بڑے عالم دُر محمد شاہ مرحوم کے پورا کتب خانہ ان کے رشتہ داروں نے انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی کو دے دیا۔اس طرح پروفیسر محبوب علی چنا، محمد ہاشم، غلام رضا بھٹو،پیر سعید حسن اور علی اکبر عباسی مرحومیں کی کتابوں کے ذخیرے بھی اسی ادارے کو بطور عطیہ مل گئے ہیں۔ ایک اور مقام پر رضا علی عابدی ریڈیو کے ساتھ اپنی وابستگی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ جب میں نے ریڈیو کی دنیا میں قدم رکھا یہ بات 1972ء کی ہے اور ہماری تربیت شروع ہوئی تو پہلے پہل یہ گر سکھایا گیا کہ اپنی آواز سے محبت کرو اور جب ریڈیو سے یہ تعلق ختم ہوا اور یہ بات 2009ء کی ہے اور میں نے پلٹ کر پیچھے کی طرف دیکھا تو میں ایک اور ہی نتیجے پر پہنچا اپنی اس تحریر میں وہی نتیجہ بیان کرنا چاہتا ہوں ابھی کچھ روز ہوئے برطانیہ کی اوپن یونیورسٹی نے لندن میں بی بی سی کی اردو نشریات کے موضوع پر ایک مجلس مذاکرہ کا اہتمام کیا (جسے اس زمانے میں سیمینار کہا جانے لگا ہے) مذاکرے کو قرینے سے آراستہ کرنے کی غرض سے اردو نشریات کو تین زمانوں میں تقسیم کیاگیا 1940ء سے تقریباً تیس برس تک پہنا دور جس میں پہلے پہل اردو ہندی نام کی کوئی تقسیم نہیں تھی جو نشریات برصغیر کے لئے ہوئی تھیں وہ ہندوستان سروس کہلاتی تھیں پھر جب برصغیر تقسیم ہوا تو ان نشریات کا بٹوارا ہوا اور آج جو اردو سروس ہے اسے پاکستانی سیکشن کہا گیا آگے چل کر اس کو اردو سروس کا نام ملا ان برطانوی نشریات کا یہ شروع کا زمانہ تھا جن کا پودا دوسری عالمی جنگ کی خاک سے پھوٹا تھا اس کے بعد اردو سروس کا دوسرا دور آیا جب اس کے سننے والوں کی تعداد کروڑوں میں جا پہنچی یہ دور 1969ء میں شروع ہوا اور تقریباً بیس سال چلا میں اسی کا گواہ ہوں اس غیر معمولی مقبولیت میں سب سے زیادہ دخل حالات کو ہے پاکستان کے انتخابات‘مشرقی پاکستان کا بحران‘ملک کا دوٹکڑے ہوجانا‘بھٹو صاحب کا پھانسی پانا‘ سارے واقعات ایسے تسلسل سے ہوئے کہ حالات سے واقف رہنے کی انسانی جبلت نے لوگوں کو ریڈیو کی طرف مائل کردیا۔گھر میں وہ کمرہ یا وہ گوشہ تلاش کیا جاتا جہاں بی بی سی کی آواز صاف اور اونچی آتی تھی اس میں بھی مشکل ہوتی تو مقررہ وقت پر ریڈیو گھر کی چھت پر لے جایا جاتا سارے گھر والے اس کے گرد بیٹھتے بعض اوقات پاس پڑوس اور محلے والے بھی آجاتے خبریں ختم ہوتے ہی یہ مجمع ان پر تبصرہ شروع کردیتا جو کبھی کبھار بھاپیں اٹھنے والے مباحثے کی صورت اختیار کرلیتا ایک کہتا کہ بی بی سی سچا ہے دوسرا کہتا کہ جھوٹا ہے مگر ہر شام ریڈیو کھول کر اس کے سامنے بیٹھتا ضرور تھا صاف اور اونچی آواز سننے کیلئے کچھ لوگ اپنی کاروں میں بیٹھ کر آبادی سے دور چلے جاتے جہاں نہ ٹریفک کا شور ہوتا اور نہ ریڈیو کی آواز میں گڑ بڑ کبھی کبھی تو ریڈیو کے گرد جمع ہونے والوں کو چپ سادھ کر بیٹھنے کی اتنی سخت ہدایت ہوتی تھی کہ لوگ شاید سانس بھی آہستہ لیتے ہوں گے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات