نئے کتب خانے 

معروف براڈ کاسٹر اور مصنف رضا علی عابدی  پرانے کتب خانوں کی تلاش میں نکلنے کی روداد میں لکھتے ہیں کہ اہل نظر جو نئے نئے کتب خانے تعمیر کر رہے ہیں ضرور کریں مگر ساتھ ہی یہ بھی بتاتے چلیں کہ پرانے کتب خانوں کا کیا ہوگا کتابوں کے قدیم ذخیروں کے اندھیرے کمروں اور سیلے ہوئے تہہ خانوں سے دن کی روشنی میں کون نکالے گا اور کیونکر؟ کیا اس تاریخی خزانے کو موسم کے اثرات سے محفوظ ائرکنڈیشنڈ کمروں میں منتقل کرنا زیادہ اہم نہیں؟ پنجاب پبلک لائبریری کے بارے میں مشہور ہے کہ اسے ایک چھوٹے سے پاکٹ کیلکولیٹر کی ضرورت تھی،پورے دو سال تک خط و کتابت کی گئی،تب کہیں 1981ء کے آخر میں ایک جیسی کیلکولیٹر نصیب ہوا اب اگر اسی پر حساب لگایا جائے تو پتہ چلے گا کہ اسے حاصل کرنے کی کوشش میں کام کے جتنے گھنٹے صرف ہوئے اتنے گھنٹوں کی اجرت میں ایک چھکڑابھر کر کیلکولیٹر فراہم کئے جا سکتے تھے پنجاب پبلک لائبریری کا قصہ یہ ہے کہ انیسویں صدی کے آخری بیس پچیس برسوں میں انگریزوں نے برصغیر کے دوبازوؤں میں دو بڑے کتب خانے قائم کرنے کا فیصلہ کیا چنانچہ ایک کتب خانہ کلکتہ میں قائم ہوا جو امپیریل لائبریری کہلایا اور دوسرا کتب خانہ لاہور میں شاہ جہاں کے گورنر وزیرعلی خان کی تعمیر کی ہوئی عالیشان بارہ دری میں قائم ہوا کلکتہ کی لائبریری اب ہندوستان کی قومی لائبریری  ہے اور ملک میں چھپنے والی ہر کتاب کی ایک جلد وہاں پہنچنا لازمی ہے اسکے برعکس لاہور کی بارہ دری پر تاریکی‘ سیلن‘ مچھروں اور چمگاڈروں کا تسلط ہے چنانچہ کتب خانے کو نکال کر بہتر عمارتوں میں بسا دیا گیا،کہتے ہیں کہ81ء میں کسی کو خیال آیا کہ کتابوں کو شمار کیا جائے رجسٹر میں سوا دو لاکھ کتابوں کا اندراج تھا  مگر الماریوں میں رکھی ہوئی کتابیں گنی گئیں تو وہ47 ہزار کم تھیں وقت کے ہاتھوں اردو کی پندرہ ہزار اور انگریزی کی گیارہ ہزار کتابیں ضائع ہو چکی تھیں تقسیم سے پہلے اور تقسیم کے ہنگاموں کے دوران جو خزانہ ہاتھ سے جاتا رہا اس پر تو اب صبر کر لینا ہی بہتر ہوگا لیکن ممتاز حسین نے اپنی بیٹی رفعت سلطانہ کی یاد میں ٹرسٹ قائم کرکے لائبریری کو آٹھ ہزار سے بھی زیادہ کتابیں دی تھیں ان میں سے دیکھتے دیکھتے تقریباً چھ ہزار لاپتہ ہوگئیں، یہ ابھی حال ہی کی بات ہے لوگ اول تو مطالعے کیلئے آتے نہیں اگر آتے ہیں اور کتابیں گھرے جاتے ہیں پھر انہیں واپس نہیں لوٹاتے صرف دس برسوں میں پونے دو ہزار کتابیں یوں جاتی رہیں ادیب ہٹلر کی سوانح اپنے گھرلے گئے جو دو جلدوں میں تھی انہوں نے پہلی جلد پورے دس سال بعد لوٹائی اور دوسری سے بالکل ہی انکاری ہیں ان تمام باتوں کے باوجود پنجاب پبلک لائبریری کی فہرستوں پر نگاہ دوڑائی جائے تو انگریزی‘ اردو‘ عربی اور فارسی کی بے مثال مطبوعہ کتابیں موجود ہیں صرف اسلامیات کے موضوع پر چھ ہزار کتابیں ہیں مشرقی علوم کی جن کتابوں کی فہرست میں اندراج نہیں ان کی تعداد چار ہزار سے زیادہ ہے۔ کتب خانے کا وہ شعبہ جو بیت القرآن کہلاتا ہے اس میں قرآن اور تفسیر کے تقریباً تین ہزار ایسے نسخے جمع ہیں کہ جو دیکھے وہ دیکھتا ہی رہ جائے اس کے علاوہ وہاں سنسکرت‘ گورمکھی اور ہندی کتابوں کا کافی بڑا ذخیرہ ہے ہاتھ سے لکھی ہوئی تقریباً اٹھارہ سو کتابیں ہیں جن میں اردو فارسی اور عربی کے علاوہ پنجابی‘ ہندی‘ کشمیری‘ ترکی‘ پشتو‘ سنسکرت اور گورمکھی مخطوطے شامل ہیں۔