لاپتہ فائلیں 

معروف براڈ کاسٹر اور مصنف رضا علی عابدی  پرانے کتب خانوں کی تلاش میں نکلنے کی روداد میں لکھتے ہیں کہ کتب خانے کا وہ شعبہ جو بیت القرآن کہلاتا ہے اس میں قرآن اور تفسیر کے تقریباً تین ہزار ایسے نسخے جمع ہیں کہ جو دیکھے وہ دیکھتا ہی رہ جائے اسکے علاوہ وہاں سنسکرت گورمکھی اور ہندی کتابوں کا کافی بڑا ذخیرہ ہے ہاتھ سے لکھی ہوئی تقریباً اٹھارہ سو کتابیں ہیں جن میں اردو‘ فارسی اور عربی کے علاوہ پنجابی‘ہندی‘ کشمیری‘ ترکی‘ پشتو‘ سنسکرت اور گورمکھی مخطوطے شامل ہیں پنجاب پبلک لائبریری چونکہ قدیم ہے اسلئے اس میں پرانے اخباروں کا بہت اچھا ذخیرہ ہے مگر اس پر بھی بڑا سانحہ گزرا ہے مثلاً اخبار زمیندار میں نے بہت ڈھونڈا اور کہیں نہ پایا لوگ کہتے ہیں کہ کبھی موجود تھا اور بڑی آن بان سے تھا‘ ایک اوردولت جو اس خزانے میں موجود ہے وہ لاہور کے تاریخی پیسہ اخبار کی فائلیں ہیں کہتے ہیں کہ کبھی یہاں پیسہ اخبار کا ایک ایک شمارہ محفوظ تھا اب پورے پورے برس کی فائلیں لاپتہ ہیں‘ پنجاب پبلک لائبریری کی بنیادیں بہت شاندار ہیں ان بنیادوں پر ویسی ہی شاندار عمارت کھڑی کرلی جاتی تو باغ جناح میں نئے کتب خانے کے قیام سے کہیں بڑا کارنامہ ہوتا بات شروع ہوئی تھی پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری سے جہاں اس وقت تین لاکھ کتابیں ہیں انگریزی کو چھوڑ کر دوسری زبانوں میں وہاں اسی ہزار چھپی ہوئی کتایں ہیں اور ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابوں کا حال یہ ہے کہ عربی‘ فارسی‘ اردو‘ پنجابی‘ پشتو وغیرہ کی دس ہزار اور دیوناگری رسم الخط میں آٹھ ہزار مخطوطے ہیں کئی کتابیں تاڑ کے پتوں پر لکھی گئی ہیں اور ہرن کی کھال پر لکھی ہوئی412ھ کی فقہ امام مالک کا احوال آپ پڑھ چکے ہیں یہ کتب خانہ یقینا خوش نصیب ہے کہ اس کیلئے یونیورسٹی کے نئے کیمپس میں بالکل نئی عمارت تعمیر ہو رہی ہے لاہور کا تیسرا بڑا کتب خانہ وہ ہے جس کے بڑے دروازے میں داخل ہوتے ہی آج بھی سب سے پہلے ایک خوش شکل‘ وجیہ اور شاندار شخص کے سنگ مرمر کے مجسمے سے ملاقات ہوتی ہے جو خود تو صحیح سلامت ہے صرف آنکھوں کی پتلیاں غائب ہیں یہ سردار دیال سنگھ ہیں جن کی بڑی تمنا تھی کہ لاہور میں ایک شاندار کالج اور ایک کتب خانہ قائم کریں یہ بھی شاید نیک نیتی کا صلہ ہے کہ تاریخ کے دھاروں کے رخ بدلے گئے مگر دیال سنگھ کا کالج اور کتب خانہ بھی زندہ ہے اور خود ان کا نام بھی۔ اس وقت کی شاندار سڑک نسبت روڈ پر یہ کتب خانہ سردارصاحب کی وفات کے پورے تیس سال بعد قائم ہوا تھا مگر برصغیر تقسیم ہوا تو اسکے تمام ٹرسٹی جو غیرمسلم تھے اسے بند کرکے ہندوستان چلے گئے اور یہ شاندار کتب خانہ پورے پندرہ سال بند پڑا رہا بلکہ اس دوران ہندوستان سے آئے ہوئے بے گھر پناہ گزینوں نے اس میں رہائش اختیار کرلی اور اب تصور کیا جاسکتا ہے کہ کتب خانے کے اندر روزانہ دو وقت چولہا جلانے کیلئے ایندھن کہاں سے آتا ہوگا کہتے ہیں کہ پندرہ سال بعد جب دیال سنگھ لائبریری دوبارہ کھولی گئی تو اس کی کتابیں الماریوں میں کم اور نیچے فرش پر زیادہ تھیں اور ان کا بڑا حصہ ضائع ہوچکاتھا۔