کتابوں پر ظلم

معروف براڈ کاسٹر اور مصنف رضا علی عابدی  پرانے کتب خانوں کی تلاش میں نکلنے کی روداد میں لکھتے ہیں کہ میں اندھرا پردیش کی سٹیٹ سنٹرل لائبریری گیا تو ذہن کو ایک دھکا سا لگا وہ یقینا بہت بڑا کتب خانہ تھا مگر نئے حالات نے اسے ویسا نہ رکھا جیسا میں نے سوچا تھااندھراپردیش اب پانچ زبانوں کا سنگم ہے اور چونکہ یہ ریاست کی مرکزی لائبریری ہے اسلئے اس میں پانچوں کا بسیرا ہے میری نگاہیں اردو‘ فارسی اور عربی کتابیں تلاش کر رہی تھیں میں نے کتب خانے کے عملے سے کہا کہ کچھ کتابیں لاکر دکھا دیجئے انہوں نے کہا کہ کتابیں باہر لانے کی ضرورت نہیں نئے رواجوں کے مطابق آپ خود کتابوں کی الماریوں کے پاس جا سکتے ہیں اور جو کتاب چاہیں نکال کر دیکھ سکتے ہیں‘ اور پھر میری درخواست پر انہوں نے مجھے اس بڑے کمرے میں پہنچا دیا جہاں لوہے کی قدیم الماریوں میں اردو‘ فارسی اور عربی کی کتابیں چنی ہوئی تھیں کہیں دور ریلوے اسٹیشنوں کے غسل خانے جیسا مدھم سا بلب ٹمٹما رہا تھا اور کتابیں کچھ اس طرح سو رہی تھیں کہ میں ان کے سرہانے بولا تو اس بات کا بہت خیال رکھا کہ آہستہ بولوں‘ میں نے کتب خانے کے ایک نگران جناب عبدالقادر صاحب سے پوچھا کہ یہ کسمپرسی کا عالم کیوں ہے ایک یتیمی سی کیوں نظر آتی ہے تو کہنے لگے”یہاں عربی‘ فارسی اور اردو کی بہت پرانی اور نایاب کتابیں موجود ہیں بعض تو دو دو سو سال پرانی ہیں لیکن یہاں عربی‘ فارسی کا کوئی قابل آدمی نہیں ہے کہ اس شعبے کی نگہداشت کرے حکومت چاہتی ہے کہ کوئی تقرر ہو لیکن عربی جاننے والے لوگ آجکل عرب ملکوں کو آسانی سے چلے جارہے ہیں جہاں زیادہ تنخواہیں ملتی ہیں یہاں سرکاری تنخواہیں کم ہیں اس واسطے اس کا صحیح انتظام نہیں ہو سکا‘ یہ تو ہوا چھپی ہوئی کتابوں کا احوال‘ وہ جو ہاتھ سے لکھی ہوئی ہزاروں کتابیں تھیں جن کی وجہ سے کتب خانہ آصفیہ مشہور تھا وہ کیا ہوئیں؟ پتہ چلا کہ وہ سٹیٹ آرکائیوز میں منتقل کردی گئی ہیں مگر کیوں؟ کسی نے کہا کہ اچھا ہی ہوا وہ بہت ہی نادر اور بیش قیمت مخطوطے تھے یہاں انکی حفاظت اور دیکھ بھال ممکن نہ تھی لہٰذا انہیں اب سٹیٹ آرکائیوز کی لائبریری میں محفوظ کردیاگیا ہے جہاں وہ تحقیق کرنے والے کو دستیاب ہیں‘ تب پتہ چلا کہ کتب خانہ آصفیہ عرف سٹیٹ سنٹرل لائبریری کی کتابوں پر سب سے بڑا ظلم دیمک‘ کیڑوں‘ خاک‘ دھول‘ اندھیرے اور سیلن نے نہیں بلکہ ہم نے‘ آپ نے‘ پڑھنے والوں نے‘ محققوں نے اور طالب علموں نے کیا غضب یہ ہوا کہ الماریاں پڑھنے والوں کیلئے کھول دی گئیں قارئین کو کتابوں تک رسائی کی اجازت دیدی گئی‘ پہلے تو لوگ کاغذ قلم لے کر آتے تھے اور نوٹس بنا کر گھر لے جاتے تھے اب وہ بلیڈ اور قینچیاں لے کر آنے لگے اور پرانی پرانی نایاب کتابوں کے تمام مطلوبہ صفحے کاٹ کاٹ کر لے جانے لگے بعض لوگ اپنے ظرف کے مطابق مطلوبہ صفحے نہیں بلکہ پوری پوری کتابیں لے گئے اس پر ہمیں پروفیسر گوپی چند نارنگ کی بات یاد آگئی۔