مشہور مصنف اور براڈ کاسٹر علی رضا عابدی نایاب کتابوں کی تلاش میں اپنے سفر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ بھوپال اپنی داستان کے ایک کردار کو عرصے تک نہیں بھلا سکے گا، اور وہ تھے ایم عرفان مرحوم۔ جن کے بارے میں خان شاکر علی خان نے کہا تھا کہ عرفان جن تھے، انہیں علم اور اردو دونوں سے غضب کا لگاؤ تھا اور ان دونوں کی خاطر رات دن کام کرتے تھے۔ وہ شاہی محل کے فوٹو گرافر تھے اور کتابوں کے ایک بڑے ذخیرے کے مالک تھے۔ اب ان کے صاحبزادے ایم عمران صاحب اس کتب خانے کی دیکھ بھال کررہے ہیں۔ جہانگیر آباد میں رمزی ترمذی صاحب کا گھرانا بھی اہل علم کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے بزرگوں کے زمانے سے کتابوں کا ایک ذخیرہ چلا آتا ہے۔ بھوپال میں رام سہائے صاحب کا گھرانا بھی بڑا نامور ہے۔ رام سہائے صاحب ابھی زندہ ہیں اور نوے سال سے اوپر ان کی عمر ہے۔بھوپال کی تاریخ پر جیسی ان کی نگاہ ہے شاید ہی کسی کی ہو۔ان کے پاس فارسی مخطوطے ہیں جن کا موضوع حسن و عشق نہیں بلکہ سائنس اور ریاضی ہے۔ اس طرح قاضی وزیر الحسینی صاحب، صدرالدین صاحب اور حکیم قمر الحسن صاحب کے نام نامی بھی آتے ہیں۔ ان بزرگوں نے قدیم کتابوں کو اولاد کی طرح بڑی چاؤ سے رکھا۔ حکیم قمر الحسن صاحب بڑے نامور طبیب تھے،ندیم کے ایڈیٹرتھے اور بہت اچھے انشا پرداز تھے۔ کہا جاتا ہے کہان کے ہاں بہت سے مخطوطے ہیں جن میں علم و طب کی کتابیں بھی ہیں۔ آل انڈیا ریڈیو کے خالد عابدی صاحب نے مجھے بتایا کہ شمالی مدھیہ پردیش کے علاقے ریوا کی سنٹرل لائبیریری میں کچھ فارسی مخطوطے ہیں۔ جو غالباً تاریخ سے متعلق ہیں اور تحقیق کرنے والوں کی نگاہ سے ابھی چھپے ہوئے ہیں۔ والیان ریوا کے گھرانے میں جو کتابیں دیکھی گئی ہیں وہ غالباً اکبر اعظم کے زمانے سے چلی آرہی ہیں۔ اسی دور میں مولوی رحمان علی خان اعلیٰ سرکاری عہدے پرفائز تھے اور انہوں نے تاریخ بندیل کھنڈ لکھی تھی جس کی دلچسپ بات یہ ہیکہ تاریخ کی یہ کتاب بیک وقت فارسی اور بگھیلی زبانوں میں لکھی گئی تھی۔ بگھیل بہت حد تک اودھی سے ملتی جلتی ہے اور اس زبان میں بہت کم کتابیں ملتی ہیں۔لیکن مولوی رحمان علی خان کی خود اپنے ہاتھوں سے لکھی ہوئی یہ کتابیں ریوا میں موجود ہیں۔ ایک اور مقام پر رضا علی عابدی اپنے سکردو کے سفر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ہماری جیپ سکردو سے نکلی اور دریا کو چھوتی ہوئی چلی‘ رستے میں درختوں کے جھنڈ آئے‘ گاؤں آئے‘ ہوائی اڈہ آیا اور سیاحوں کی بہشت شنگر یلا آئی‘ دریا گھاٹی میں داخل ہونے لگا اور سڑک بلند ہونے لگی کہ اچانک سامنے بڑا سا پل آگیا یہاں ہماری جیپ روک لی گئی‘ اس کی تلاشی لی گئی‘ ڈر تھا کہ اس میں کہیں ہتھیار نہ ہوں‘ہتھیاروں کی و با بلتستان تک پہنچ گئی تھی‘ایک نوجوان جیپ کی تلاشی لینے میں مصروف تھا‘ میں نے باتوں باتوں میں اسے اپنا اتہ پتہ بتایا‘ میرا نام سننا تھا کہ اس نے تلاشی چھوڑی اور مجھے بھینچ کر سینے سے لگا لیا اور جب تک میں نے چائے نہیں پی لی‘ بسکٹ نہیں کھالئے اور بہت دیر تک مصافحہ نہیں کرلیا‘ اس نے مجھے جانے نہیں دیا‘ اتنی چھوٹی آنکھوں سے اتنی بہت سی محبت جھلک سکتی تھی‘ اس کا احساس مجھے بلتستان جا کر ہوا اور اتنی تنگ‘ دشوار گزار‘سنگلاخ اور لڑھکتی چٹانوں میں پسی جانے والی گھاٹی میں اتنی عمدہ‘ محفوظ اور رواں سڑک بنائی جاسکتی ہے‘ اس کا علم بھی مجھے بلتستان پہنچ کر ہوا۔اب جو ہماری جیپ آگے چلی‘ انسان اور اس کے ہنر اور اسکے عزائم کے بھید کھلتے گئے‘ ہمالیہ کے پار قراقرم کے برف سے ڈھکے پہاڑ سراٹھائے کھڑے تھے جن میں پاکستان کے انجینئروں اور فوجیوں نے یہ ایسی سڑک تراشی ہے کہ اس پر چلتے ہوئے دل دہلتا جاتا ہے اور عقل داد دیئے جاتی ہے‘ کبھی یوں لگا کہ بہت اونچائی پر کوئی دوسری سڑک چلی جارہی ہے‘ ذرا دیر بعد خود کو اسی سڑک پر پایا‘ کبھی یہ نظر آیا کہ نیچے گہرائی میں ایک متوازی سڑک دوڑ رہی ہے کچھ دیر بعد خود کو اس پر دوڑتا ہوا دیکھا۔ حیرت انگیز طو پر تراشی ہوئی چٹانیں جن پر تتر بتر گھاس کے سوا کسی درخت کا نام و نشانہ بھی نہ تھا‘کہیں کہیں بالائی چٹانیں ہمارے سروں کے اوپر جھکی ہوئی تھیں‘ بالائی پہاڑ سڑک پر سایہ کئے ہوئے تھے‘ دو ایک جگہ اوپر سے گرتے ہوئے آبشار عین سڑک کے اوپر برس رہے تھے‘ گرد میں اٹی ہوئی موٹرگاڑیاں ان سے گزریں تو دوسری طرف شفاف ہو کر نکلیں۔ایسی شاہراہ پر قدم قدم پر خوشبو دار پھول کھلے ہوتے تو کتنا اچھا لگتا مگر اس شاہراہ پر قدم قدم پر کتبے کھڑے تھے جن پر لکھا تھا ”اس جگہ سڑک بناتے ہوئے فلاں انجینئر شہید ہوا‘ اس مقام پر ڈرائیور فلاں نے جام شہادت نوش کیا……اور اس جگہ کرنل فلاں بارود کے ناگہاں دھماکے میں شہید ہوئے“اس روز پتھر کے کتبوں سے پھولوں کی خوشبو آئی‘ہماری جیپ دریا کے ایک کنارے پر بہت اونچی سڑک پر جارہی تھی اور دوسرے کنارے پر بہت نیچے‘ لب دریا ایک سرسبز گاؤں تھا جس کے ہریالے میدان میں لوگ پولو کھیل رہے تھے‘ اونچائی سے یہ منظر بڑا دلفریب لگا۔
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات