کچھ قابل ذکر واقعات

مشہور براڈکاسٹر اور مصنف رضا علی عابدی قدیم لائبریریوں اور کتابوں سے متعلق روداد میں لکھتے ہیں کہ اندور میں ایک قدیم لائبریری ہے  جس کا سن تعمیر اور نام دونوں دلچسپ ہیں، یہ لائبریری 1857میں قائم ہوئی تھی اوراس  کا نام وکٹوریہ لائبریری ہے۔یہ نام تو باقی نہیں رہے گا مگر خدا کرے کہ وہ قدیم کتابیں محفوظ رہیں جو ایک الماری میں بند پڑی ہیں۔ البتہ مدیہہ پردیش کی ایک لائبریری ہے جسے ہندوستان کی تاریخ کے طالب علم فراموش  اور  نظر انداز ہی نہیں کرسکتے، یہ کتب خانہ سیتا مو میں ہے اور کہتے ہیں کہ مغل دور کے روزنامچوں اور اخباروں کا وہاں ایسا ذخیرہ ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی اور خوش قسمتی سے اس ذخیرے کی دیکھ بھال بھی ہورہی ہے۔سیتا موایک چھوٹا سا دور دراز مقام ہے  جو ہندوستان کے نقشے پر مشکل سے ہی نظر آتا ہے۔لیکن جنہیں علم کی جستجو ہے وہ اسے ڈھونڈ نکالتے ہیں۔چنانچہ تحقیق اور مطالعہ کرنے والوں کے رہنے سہنے کا سارا بندوبست بھی کتب خانے ہی میں ہے۔میرے علم میں ایسا ایک اور اقامت خانہ سندھ کے مقام گڑھی یاسین میں ہے۔سیتا مو کے اس کتب خانے کے بارے میں تاریخ کے استاد حامد جعفری صاحب نے بتایا۔ کہ سیتا موکی لائبریری کے ڈائریکٹر کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں بڑے اعلیٰ پائے کے محقق ہیں۔ ان لائبریری میں مخطوطات اور ترجمے بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں، ان کے شوق کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے مولوی اور منشی مقرر کئے ہیں، اور مترجم مقرر کئے ہیں،خود بھی بہت اچھی فارسی جانتے ہیں، ان کے ہاں ترجمے کاکام مسلسل جاری ہے، جیسا کہ مجھے معلوم ہے انہوں نے عبدالحمید لاہور کا بادشاہ نامہ ترجمہ کرایا ہے، جو اب شائع ہونیوالا ہے۔ان کی لائبریری سے استفادہ کرنے والوں میں سرجادو ناتھ سرکار سے لے کر ڈاکٹر ایشوری پرشاد، بنارسی پرشاد، ڈاکٹر بینی پرشاد، غرضیکہ ہندوستان کا کوئی بڑا مورخ ایسا نہیں کہ جس نے سیتا مو کے اس ذخیرے سے فیض حاصل نہ کیا ہو۔ یہ تو تھی ایک بڑے کتب خانے کی بات‘ بھوپال کے قریب ایک مقام ہے آشٹا‘ وہاں ایک صاحب ہیں جو پیشے کے لحاظ سے درزی ہیں ان کے پاس کتابوں کا پرانا ذخیرہ موجود ہے جس میں فارسی کی بہت سی کتابیں شامل ہیں اسی طرح اسی پیشے کے ایک اور صاحب کی بات  خالد عابدی صاحب نے بتائی‘ اندرو میں ایک خیاط ہیں ان کے پاس میں نے گیتا کا ایک قلمی نسخہ دیکھا ہے جو بلامبالغہ ایک ہزار صفحوں پر ہے اس کا رسم الخط فارسی لیکن اس کی زبان اور دھی ہے وہ اس کو فروخت کرنا چاہتے ہیں‘ اندورہی میں ایک اور صاحب ہیں عبدالنور دانش ان کے پاس اکبر نامہ کا ایک بہت بڑا نسخہ موجود ہے جنہوں نے دیکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ کتاب کی لمبائی چوبیس انچ سے کم نہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اکبرنامہ ابوالفضل کے بھائی نے نقل کیا تھا اس پر طلائی کام ہے اور خود نسخہ بہت اچھی حالت میں ہے۔ایک اور مقام پر رضا علی عابدی اپنے پرانے دوستوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہجس روز میں نے بی بی سی میں قدم رکھا‘ اتو ار کا دن تھا عملے کے تمام بڑے لوگ چھٹی پر تھے اور چھوٹے لوگ پروگرام پیش کررہے تھے چکوال کے اکرم منہاس پروگراموں کے بیچ میں اعلانات کررہے تھے اور پٹنہ کے سید حسن خبریں پڑھ رہے تھے‘ان دنوں لاجواب لوگ بی بی سی سے وابستہ تھے اطہر علی‘وقار احمد‘ضمیرالدین احمد‘ تقی احمد سید‘وسیم صدیقی‘راشد اشرف‘راشدالغفور اور یونس واسطی یہ سب اعلیٰ پائے کے براڈ کاسٹر تھے‘ عملے میں ایک شخص ریڈیو پاکستان کا ہوا کرتا تھا لیکن جاننے والوں میں ایک قابل ذکر نام مختار زمن کا تھا جب میں آیا وہ جارہے تھے اور ان کا جانا عام لوگوں کے جانے سے مختلف تھا‘یہاں اپنے سرکردہ ساتھیوں کا حال کہتا چلوں ہمارے ساتھیوں میں سب سے سینئر یاور عباس تھے‘یاور عباس کسی مرحلے پر پاکستان چھوڑ کر لندن آگئے اسوقت بی بی سی کو اردو براڈکاسٹروں کی سخت ضرورت تھی چنانچہ وہ اردو سروس سے وابستہ ہوگئے اور ابھی 88ء یا 89ء سال کی عمر تک وابستہ تھے اس کے بعد حالات بدل گئے اور اردو کے شعبے سے تمام بزرگ فارغ کردیئے گئے‘یاورعباس نے شروع ہی سے اپنی دھاک جمائی اور اس قدیم زمانے میں انگریزی کے تمام بڑے ڈرامے اردو میں ڈھال کر پیش کئے ان میں شیکسپیئر کے ڈرامے خصوصاً قابل ذکر ہیں چند ایک ڈراموں میں بابائے ریڈیو ذوالفقار علی بخاری مرحوم کی آواز بھی شامل تھی میرے ہوتے ہوئے یاور عباس نے دو قابل ذکر پروگرام پیش کئے ان میں سے ایک کا عنوان تھا اردو کے یورپین شاعر’اور دوسرا دنیا کی تاریخی تقریروں سے ترتیب دیاگیا تھا اس میں تمام تر صدا کاری سعید جعفری نے کی تھی جو اپنی اداکاری کی تربیت کی بنا پر آواز کو کرداروں کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔دوسرے سینئر ساتھیوں میں تقی احمد سید تھے وہ بھی اردو سروس کے پرانے رفقا میں سے ایک تھے حالات حاضرہ کے پروگرام پیش کیا کرتے تھے اور وہ جو وضعدار لوگ ہوا کرتے تھے ان کی جیتی جاگتی مثال تھے ان کے بعد اطہر علی اور وقار احمد تھے اطہر علی دہلی کالج  کے تعلیم یافتہ تھے‘بہت ذہین اورہنر مند تھے‘ ریڈیو سے حالات حاضرہ کے پروگرام پیش کیا کرتے تھے‘ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے موقع پر انکے پیش کئے ہوئے پروگرام کو بہت شہرت حاصل ہوئی تھی ایک مرتبہ انہوں نے پاکستان کے حالات پر کوئی پروگرام نشر کیا ان دنوں ضیاء الحق فوجی حاکم تھے ذرا ہی دیر بعد ضیاء الحق کا راولپنڈی سے ٹیلی فون آیا اور انہوں نے اطہر صاحب کو مبارکباد دی آخری دنوں میں وہ اردو سیکشن کے سربراہ ہوگئے تھے ان سے پہلے یہ اعزاز صرف سفید فام حضرات کیلئے مخصوص تھااطہر صاحب کے دوستوں کا بڑا حلقہ تھا اور عجب اتفاق ہے کہ دو ایک کے سوا اس حلقے کے سارے احباب رخت سفر باندھ چکے ہیں۔