مشہور براڈکاسٹر اور مصنف رضا علی عابدی قدیم لائبریریوں اور کتابوں سے متعلق روداد میں لکھتے ہیں کہ کوٹڑی محمد کبیر نواب شاہ میں نیشنل ہائی وے پر ایک قدیم گاؤں ہے جہاں کبھی مخدوم شیخ محمد کبیر اور سخی شیخ اللہ یار کی درسگاہیں تھیں اور اب ان دو بزرگوں کی درسگاہیں ہیں وہاں پرانی درسگاہوں کی کتابیں ابھی تک موجود ہیں جن کے بارے میں ڈاکٹر الانا نے کہا”وہاں میری نظر میں سب سے زیادہ قیمتی اور نایاب کتابیں مخطوطوں کی شکل میں پائی جاتی ہیں کوٹڑی محمد کبیر ایک ایسا گاؤں ہے جہاں کے بزرگوں نے صدیوں پہلے کتابیں اکٹھا کرنا شروع کی تھیں اور مشہور ہے کہ سندھ کے بزرگ شاعر شاہ لطیف بھی وہاں گئے تھے اور انہوں نے بھی کتابیں دیکھی تھیں‘ کوٹڑی محمد کبیر کے اس کتب خانے کے بارے میں پہلے یہ سنا جاتا تھا کہ وہاں کتابوں کی حالت اچھی نہیں کیونکہ وہاں قدیم کاغذوں کے تحفظ کا انتظام نہیں لیکن اب سنا جاتا ہے کہ درگاہوں کے سجادہ نشین پیرزادہ میاں غوث محمد گوہر ان نایاب کتابوں کو بچانے کی کوشش کر رہیہیں اور اس کام کیلئے متعلقہ اداروں کی مدد لے رہے ہیں‘ کوٹڑی محمد کبیر کے بعد سندھ میں نایاب کتابوں کا دوسرا بڑا ذخیرہ بھی ایک چھوٹے سے قصبے منصورہ میں ہے منصورہ کا دینی علوم کا مدرسہ جہاں یہ کتابیں موجود ہیں عالم اسلام میں بہت مشہور ہے چنانچہ اس مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے طالب علم بڑی تعداد میں آتے ہیں ایسا ہی ایک اور ذخیرہ سندھ کے ایک گاؤں پیر جھنڈو شریف میں تھا وہاں برطانیہ‘ ترکی اور مصر کے کتب خانوں سے نایاب کتابوں کی نقلیں منگا کر جمع کی گئی تھیں اب یہ کتب خانہ نیشنل میوزیم کو دے دیا گیا ہے‘ سندھ میں دو اور ایسے پرانے مدرسے ہیں جہاں دینیات اور سیرت پر نایاب کتابیں اور مخطوطے پائے جاتے ہیں ان کے متعلق ڈاکٹر الانا نے بتایا”خیر پور میرس کی طرف ایک چھوٹا سا شہر ہے ٹھیڑی جہاں جامعہ دارالہدیٰ ہے اس مدرسے میں بھی پانچ چھ سو قلمی نسخے موجود ہیں جو دینیاتاور فقہ پر بڑی نادر کتابیں ہیں اسی طرح اگر ہم زیریں سندھ میں جائیں تو وہاں میرپور بٹھورو کی طرف ایک چھوٹا سا گاؤں ہے چنہان جس کو سومرو بھی کہتے ہیں وہاں بھی ایک پرانا مدرسہ ہے اس میں قدیم زمانے کے سندھی کاتبوں کی لکھی ہوئی فقہ اور سیرت پر کتابیں ملتی ہیں‘ اسی طرح ضلع ٹھٹھہ کے ایک گاؤں چوہڑ جمالی میں شاہ بندرادبی سوسائٹی کا کتب خانہ اور اسی علاقے میں مدرسہ ہاشمیہ سجاول کا کتب خانہ نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ضلع سانگھڑ کے دیہات میں بھی دو بڑے کتب خانے ہیں ان میں سے ایک چوٹیاریوں اور دوسرا ڈبھروں نامی گاؤں میں ہے جو سادات کا بڑا کتب خانہ ہے جس میں مخطوطات اور نوادر کا ذخیرہ ہے‘ لاڑکانہ کے قریب پیر جوگوٹھ میں پیر نجیع اللہ شاہ کا کتب خانہ موجود ہے جو بڑا علمی سرمایہ ہے اسی نام کا ایک گاؤں خیرپور میرس کے قریب ہے جس میں پیر صبغت اللہ شاہ مرحوم کی کتابیں اور ان کے بزرگوں کی چھوڑی ہوئی کتابیں بڑی تعداد میں موجود ہیں زیادہ تر کتابیں حدیث‘ تاریخ‘ صرف ونحو‘ فقہ اور لسانیات کے موضوع پر ہیں دو بڑے دینی مدرسے کراچی کے علاقوں کھڈہ اور ملیر میں موجود ہیں جو مخطوطوں اور نایاب کتابوں سے مالا مال ہیں ایک اور مدرسہ بھی ہے جو کہ جناب مولانا عبدالحق ربانی کا ہے اور یہ میرپورخاص کے قریب واقع ہے وہ بھی قیمتی کتابوں سے خالی نہیں ہے یہ تھا سندھ کے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں اور مدرسوں میں موجود تاریخ کے شہ پاروں کا ایک جائزہ‘ بلاشبہ اس میں کئی نام اور مقام شامل ہونے سے رہ گئے اور یہ مقام معذرت طلبی کا ہے آئندہ باب میں ہم نایاب کتابوں کے ان ذخیروں کی بات کرینگے جو صوبہ سندھ کے امیروں‘ رئیسوں‘ عالموں‘ سیاست کاروں اور غریبوں کے گھروں میں‘ ان کی اپنی ذاتی ملکیت میں موجود ہیں ان میں سے کئی کتب خانے تباہ ہو رہے ہیں کئی کو بچا لیا گیا ہے اور کتنے ہی کتب خانے ایسے ہیں جنہیں ہم اور آپ دیکھ ہی نہیں سکتے البتہ جانتے ہیں کہ وہاں تاریخ کی ایسی ایسی نادر یادگاریں موجود ہیں کہ انہیں خدانخواستہ نقصان پہنچا و پھر تلافی کی کوئی صورت نہیں۔
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات