آثار اچھے نہیں 

مشہور براڈکاسٹر اور رضا علی عابدی پرانی کتابوں اور لائبریریوں کے حوالے سے اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ہم نے ایک الماری سے ٹین کا بنا، لمبا سا گول ڈبا انکالا، زمانے کی ٹھوکریں کھا کھا کر وہ ڈبا جگہ جگہ سے پچک گیا تھا، اسے کھولا تو اندر سے لپٹا ہوا وزنی کاغذنکلا۔ گول تھان کی طرح لپٹے ہوئے کاغذ کو کھولنا شروع کیا۔تو وہ کھلتا ہی چلاگیا۔ کم سے کم اٹھارہ فٹ لمبا، دبیز اور مضبوط کاغذ تھا جس پر کسی خطاط نے برسوں سے سر جھکا کر نہایت خوش خط قلم سے پھول بوٹوں اور قرآن کی آیتوں کے درمیان ایک شجرہ لکھا تھا۔ جو ابوالبشرحضرت آدمؑ سے شرو ع ہو کرہندوستان کے کسی رئیس پر ختم ہوتاتھا۔ پورا تھان کا تھان سلامت تھا، مگر افسوس کہ آخری ایک انچ کا وہ ٹکڑا پھٹ کر ضائع ہوچکا تھا، جس پر غریب خطاط نے اپنے چھوٹے سے قلم سے باریک حروف میں خود اپنا نام اور کتابت کی تاریخ لکھی تھی۔ خوشخطی کا یہ شاہکار بھوپال کی مولانا آزاد لائبریری میں محفوظ ہے۔ ہمارا یہ باب بھی مدیہہ پردیش اور خصوصاً بھوپال کیلئے مخصوص ہے۔شمالی ہندوستان کے ہنگاموں سے دوروہ پرسکون خطہ ہے جسے علامہ اقبال نے غور وفکر کیلئے سازگار پایا۔ بھوپال میں اسی مناسبت سے علامہ اقبال لائبریری قائم ہوئی۔اور اب تک موجود ہے۔ کتابوں کا ایک اور بڑا ذخیرہ خان باسط صاحب کے پاس ہے، وہ عبیدیہ مڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں اور غالباًصدیق حسن خان کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے گھر میں ایک بڑا کمرہ ہے جس میں پرانی کتابیں قرینے سے چنی ہیں۔ایک اور مقام پر ریڈیو پروگرام میں بعض اوقات عجیب صورتحال پیش  آنے کے حوالے سے رضا علی عابدی اپنی ایک اور کتاب میں لکھتے ہیں کہ شاہین کلب کی چٹ پٹی باتوں میں سدھوبھائی کا حلو ے کاشوق بہت رنگ بھرتا تھا۔ ان کے مکالموں میں حلوے کا ذکر ضرور آتاتھا‘ہمارے ساتھی علی احمد خان جب بی بی سی لندن میں ملازم ہو کر آئے اور ان کے بچے بھی لندن آئے تو بچوں نے اپنے ابا سے پوچھا کہ کیا ہم سدھو بھائی سے مل سکتے ہیں؟ علی احمد خان نے کہا کہ یہ بھی کوئی مشکل کام ہے؟ انہیں کسی روز کھانے پر اپنے گھر بلا لیتے ہیں‘ سدھوبھائی کو دعوت دی گئی‘ان کیلئے مزے مزے کی چیزوں کے علاوہ بہت سا حلوہ پکایا گیا اور سدھو بھائی کے سامنے سجادیاگیا۔ تب یہ بھید کھلا کہ وہ ذیابیطس کے مریض ہیں اور حلوہ یا کوئی بھی مٹھائی نہیں کھا سکتے‘ بچوں نے حیران ہو کر پوچھا”توسدھو بھائی‘پروگرام میں وہ سب کہنے کی باتیں تھیں؟ کچھ جھینپ کر اور کچھ شرما کر بولے ”ہاں“ایک بار بی بی سی کے حکام بالا نے کہا کہ وہ اتنے مقبول ہیں کیوں نہ انہیں ہندوستان پاکستان کے دورے پر بھیجا جائے یہ سن کر میں مچل گیا اور کہا کہ وہ بہت سیدھے ہیں۔ اس لئے ان کا نام سدھو بھائی ہے۔ لوگ ان سے لطیفوں اور قہقہوں کی توقع کریں گے‘چنانچہ ان کیساتھ پروگرام کے نہ صرف سارے کردار بلکہ سارے سکرپٹ بھی بھیجنے پڑیں گے‘یہ بات کہتے ہوئے میرا دل تو بہت دکھا لیکن اگر وہ چلے جاتے تو خدا جانے ان کا دل کتنا دکھتا۔