نیویارک اور کوہ مری کے سانحات دیر تک یاد رکھیں جائیں گے ایک شہر میں آتشزدگی کی وجہ سے ہلاک ہونیوالوں کی تعداد سترہ تھی تو دوسرے میں سردی سے ٹھٹھرکر بائیس افراد جاں بحق ہوئے تھے ایک جگہ آگ کے شعلوں کی تپش اور دھویں نے زندہ انسانوں کو موت کی وادی میں پہنچا دیا تو دوسری جگہ برف میں دھنسی ہوئی کاروں میں سے نکلنے والی زہریلی گیس نے سانسوں کی ڈوریاں کاٹ ڈالیں دونوں سانحے ایکدوسرے سے یکسر مختلف تھے قدر مشترک ان میں صرف یہ بات ہے کہ دونوں کو میڈیاپر اب تک کوریج مل رہی ہے دونوں المیوں میں عدم مماثلت کی کئی وجوہات ہیں ان میں سے اہم ترین یہ ہے کہ نیویارک میڈیا نے کسی شہری ادارے پر اس سانحے کی ذمہ داری نہیں ڈالی کسی فرد یا ادارے کی تعریف اسلئے نہیں کی گئی کہ جس نے بھی جو کچھ کیا وہ اسکی ذمہ داری تھی اور تنقید اسلئے نہیں کی گئی کہ تمام سرکاری ملازموں نے اپنے فرائض بہ طریق احسن انجام دئے نیو یارک ٹائمز نے دس جنوری کے اخبار میں پہلے صفحے کی خبر میں لکھا ہے Firefighters found victims on every floor and worked to rescue them even as their own oxygen tanks ran lowفائر ڈیپارٹمنٹ‘ ریڈ کراس‘ سٹی پولیس اور ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی اس اچھی کارکردگی کے باوجود اس انیس منزلہ عمارت میں آگ لگنے کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی ابتدائی تحقیقات کے مطابق جو وجوہات سامنے آئیں ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ تیسرے فلور کے ایک اپارٹمنٹ میں ایک ہیٹر کے پھٹنے سے یہ آگ لگی یہ ہیٹر کئی دنوں سے مسلسل چل رہا تھا دوسری وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس اپارٹمنٹ کے مکین جب گھبرا کر بھاگے تو نکلتے وقت دروازہ کھلا چھوڑ گئے جسکی وجہ سے آگ پوری بلڈنگ میں پھیل گئی اس عمارت میں زیادہ تر مغربی افریقہ کے ملک گمبیا کے مسلمان رہتے ہیں اخبار نے لکھا ہےApartment doors left open during fires have featured in some of the city's worst blazes یعنی اس شہر کی بد ترین آتشزدگیوں کی ایک وجہ جلتی آگ کے دوران اپارٹمنٹ کے درازے کھلے چھوڑدینا ہے اب تک کی تحقیقات کے مطابق اس آتشزدگی کی تیسری وجہ smoke alarms کی خرابی ہے بلڈنگ کے مکینوں نے بتایا ہے کہ سموک الارم تو ہر جگہ لگے ہوئے ہیں مگر یہ دن میں کئی مرتبہ بجتے رہتے ہیں جسکی وجہ سے ان پر کوئی توجہ نہیں دیتا بلڈنگ کے منیجر نے بتایا ہے کہ لوگ سگریٹ پینے کیلئے سموک الارمز میں سے بیٹریاں نکال لیتے ہیں جسکی وجہ سے یہ کئی مرتبہ بجتے ہیں اس بگاڑ نے میڈیا پر اس بحث کو جنم دیا ہے کہ لوگوں کو ان حرکتوں کے نتائج سے آگاہ کرنا کس کی ذمہ داری ہے اسکا جواب یہ دیا گیا ہے کہ پبلک سیفٹی کی طرح Public Awareness یعنی عوامی آگاہی بھی حکومت کی ذمہ داری ہے اب جو شہر تارکین وطن سے بھرا ہوا ہو اور جہاں ہر روزہزاروں کی تعداد میں دوسرے ممالک سے لوگ آتے ہوں وہاں حکومت کس کس کو آگاہ کریگی۔نیویارک کے نئے میئر ایرک ایڈم جنہوں نے یکم جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ہے نے کہا ہے کہ وہ میڈیا کی مدد سے شہری مسائل پر لوگوں کو آگاہ کرنیکی کوشش کریں گے ایرک ایڈم نیویارک کے دوسرے سیاہ فام میئر ہیں وہ برونکس کے علاقے فورڈہم ہائٹس میں ہونے والی اس آتشزدگی کے مقام پر پہلے دن دو مرتبہ گئے انہوں نے اس جگہ ایک پریس کانفرنس شام پانچ بجے کی اور دوسری اگلی صبح سات بجے کی اس بلڈنگ کے مکینوں سے خطاب کرتے ہوے انہوں کہا During a tragedy we are going to be here for each other اور پھر انہوں نے ایسا کر بھی دکھایا اس آتشزدگی کے دو دن بعد انہوں نے اعلان کیا کہ اس بلڈنگ کے 118 اپارٹمنٹس میں رہنے والے ہر خاندان کو فوری طور پر 2250 ڈالر دیئے جائیں گے اس کام کیلئے دو ملین ڈالر کا فنڈ قائم کیا گیا ہے اس فنڈ سے ہلاک شدگان کی تدفین کے اخراجات بھی ادا کئے جائیں گے اسکے علاوہ جو لوگ جاں بحق ہونیوالوں کو کسی دوسرے ملک میں دفن کرنا چاہیں تو انہیں فضائی سفر کے اخراجات بھی دئے جائیں گے نیو یارک میں گمبیاکی کمیونٹی نے اپنے ہموطنوں کی مدد کیلئے Go Fund Me کے نام سے انٹرنیٹ پر چندہ جمع کرنے کی ایک ویب سائٹ بنائی ہے اسمیں اب تک ڈیڑھ ملین ڈالر جمع ہو چکے ہیں اس تنظیم کو لوگوں نے اتنے کپڑے‘ جوتے‘ بیڈ شیٹس‘ بچوں کی ضرورت کی چیزیں اور خوراک مہیا کی ہے کہ اب وہ یہ اعلان کر رہے ہیں کہ انکے پاس مزید سامان کیلئے جگہ نہیں ہے۔یہاں اہم سوال یہ ہے کہ امریکہ میں کسی بھی جگہ آتشزدگی کی خبر ملتے ہی درجنوں فائر فائٹرزایک بڑی تعداد میں واٹر ٹینکس‘ آکسیجن سلنڈرز‘ سٹیل کی سیڑھیاں اور Fire Extinguisher لیکر جائے حادثہ پر کیسے دیکھتے ہی دیکھتے پہنچ جاتے ہیں گرمی ہو یا سردی انہوں نے Fire resistant pants and shirts‘ ہیلمٹ‘ چمڑے کے داستانے اور جوتے پہنے ہوتے ہیں انکے ساتھ ایک بڑی تعداد میں پیرا میڈکس اور ایمبولینسزبھی ہوتی ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک بھر میں واقع ہزاروں فائر سٹیشنز پر کام کرنیوالے لاکھوں فائر فائٹرز ہمہ وقت تیار رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ انہیں کسی بھی وقت بلایا جا سکتا ہے نیویارک میں اسی سے نوے فیصد فائر فائٹرز Volunteers ہیں انہیں کوئی تنخواہ نہیں ملتی مگر انہیں مکمل ٹریننگ حاصل کرنا پڑتی ہے خدمت خلق کے جذبے سے کام کرنیوالے یہ لوگ آپکو ہر اس ٹاؤن میں مل جائیں گے جہاں فائر ڈیپارٹمنٹ ہے اسی وجہ سے امریکہ میں فائر فائٹروں کو فوجیوں سے زیادہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس سکے کے دوسرے رخ کا جائزہ اگلے کالم میں لیا جائیگا۔
اشتہار
مقبول خبریں
مشرق وسطیٰ‘ یحییٰ سنوار کے بعد
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
ڈونلڈ ٹرمپ‘ ناکامی سے کامیابی تک
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
کیا ٹرمپ کا امریکہ ایک مختلف ملک ہو گا
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی