مشہورمصنف اور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی پرانی کتابوں اور لائبریریوں کے حوالے سے اپنی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ‘ خالد عابدی صاحب جن کا تعلق آکاش وانی اندور سے ہے لکھنے پڑھنے اور تحقیق سے دلچسپی رکھتے ہیں اور خود بھی قدیم کتابیں جمع کرتے ہیں ان کے پاس فقہ ہندی اور تذکرہ مراۃ الخیال کے قلمی نسخے ہیں اور شاعری پر کچھ رسالے ہیں جن میں مختلف اشکال سے فن عروض سمجھایا گیا ہے کچھ کتابیں طب کے بارے میں ہیں اور گزشتہ صدی کی ایک فارسی شاعرہ کا تذکرہ ہے جو غالباً بھوپال میں قلمی نسخوں اور پرانی کتابوں کے دو بڑے ذخیرے دینی مدرسوں میں ہیں ان میں سے ایک جامعہ اسلامیہ عربیہ ہے اور دوسرا دارالعلوم تاج المساجد ہے تاج المساجد میں جو برصغیر کی بڑی مسجدوں میں شمار ہوتی ہے دو کتب خانے ہیں جن میں سے ایک طالب علموں کیلئے مخصوص ہے اور دوسرا عام پڑھنے والوں کیلئے کھلا ہوا ہے سلیقہ کالج اور حمیدیہ کالج میں بھی بعض بہت نادر کتابیں موجود ہیں۔ اور آخر میں ہم آتے ہیں بھوپال کی مولانا آزاد لائبریری کی طرف جو اتوار روڈ پر ایک وسیع میدان کے درمیان بنی ہوئی ہے یہ کتب خانہ ریاستی دور کی شاندار سرخ عمارت میں قائم ہے گنبدوں‘ برجوں اور محرابوں کی اس عمارت کے بڑے حصے میں تو آج کل جدید کتابیں رکھی گئی ہیں البتہ ایک بہت بڑے بغلی کمرے میں دیوار کے ساتھ ساتھ یورپین طرز کی شاندار اور بھاری بھرکم الماریاں کھڑی ہیں جن کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کتب خانے کیلئے ریاست حیدرآباد نے بطور خاص پیش کی تھیں کسی زمانے میں یہ دیوقامت الماریاں قدیم کتابوں اور دستاویزوں سے بھری پڑی تھیں مگر اب ان کی حالت اس بوڑھے کی ہے جس کے دانت جابجا ٹوٹ گئے ہوں۔جب یہ شاندار کتب خانہ قائم ہوا تو اس کا نام محمد حمید اللہ خان صاحب کے نام پرحمیدیہ لائبریری رکھا گیا۔ پھر وقت بدلا تو سنٹرلائبریری کہلائی اور چونکہ وقت کا بدلنا کبھی نہیں رکتا، اب مولانا آزاد لائبریری کے نام سے بس اتنی مشہور ہے کہ جب رکشہ والے سے کہا کہ مولانا آزاد لائبریری لے چلو تو وہ حیرت سے منہ تکنے لگا۔ یہ کتب خانہ بڑے چاؤ سے قائم ہوا ہوگا کیونکہ اس میں والیان ریاست کے ذاتی ذخیروں سے نکال کر بے مثال نادر نسخے رکھے گئے۔ مثلا نواب سلطان بیگم جہاں نے اپنی کتاب میں جہاں دنیا بھر سے بیش قیمت کتابیں حاصل کرنے کا ذکر کیا ہے وہیں ان کتابوں کا احوال بھی ہے جن پر انہیں ناز تھا۔ مثلا صحیح بخاری کی ایک شرح جو تین جلدوں میں تھی، عام لوگوں کا خیال ہے کہ اس قسم کی تمام کتابیں ابھی تک محل میں ہوں گی یا ادھر ادھر ہو گئی ہوں گی مگر میں نے محض آزمائش کی خاطر دیکھاتو صحیح بخاری کی اس شرح کی جو خطاطی کا بے مثال نمونہ ہے وہیں مولانا آزاد لائبریری کے اسی بغلی کمرے میں پایا۔ اور جگہ پر رضا علی عابدی اپنے ماریشس کے سفرنامے میں ایسی ہی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کھیتوں میں بھی وہی اہرام کھڑے تھے‘میں نے کسی سے پوچھا۔ ”یہ کیا ہے؟“ اب کے ذرا تفصیل سے جواب ملا۔ ”کسی زمانے میں یہ کھیت تیار کئے گئے ہوں گے‘ اس وقت مٹی سے جو پتھر نکلے ان کے ڈھیر لگا دئیے گئے۔“ میں ہوٹل پہنچا تو ایک نوجوان نے میرا سامان میرے کمرے میں پہنچایا۔ بھلا سا ہونہار نوجوان تھا۔ ”کیا نام ہے تمہارا“ میں نے اپنی ٹائی کھولتے ہوئے پوچھا ”کریم بلا“۔ ”کہاں کے رہنے والے ہو؟‘ ’یہیں۔ ماریشس کے۔‘ میں نے اپنا ایک جوتا کھولتے ہوئے پوچھا۔ ’کریم بلا۔ کچھ تمہیں پتہ ہے یہ ماریشس کے کھیتوں میں بڑے بڑے وزنی پتھروں کے اہرام کس نے بنائے تھے؟‘ ’ہاں پتہ ہے‘ میں ڈوری کھولتے رک گیا اور پوچھا ’کس نے؟‘ ’جہازی بھائیوں نے۔‘ میں نے دوسرا جوتا کھولتے ہوئے پوچھا اور اس بار میرے سوال میں سوال کم اور حیرت زیادہ تھی۔ ”کس نے؟‘ ’جہازی بھائیوں نے۔ میرے دادا کے دادا نے۔‘ میں نے اپنا سوٹ کیس کھول کراس میں سے سلیپر نکالتے ہوئے پوچھا ’کون تھے تمہارے دادا کے دادا؟‘ ’بلا صاحب۔ کلکتے سے چلے تھے۔ ان کے جہاز کا نام شاہ عالم تھا۔ جون 1885ء کو یہاں ماریچ پہنچے تھے۔“ ”ماریچ؟“ ہاں‘ وہ لوگ اس جزیرے کو ماریچ کہتے تھے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات