تاریخ چاہے کچھ کہے

مشہورمصنف اور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی پرانی کتابوں اور لائبریریوں کے حوالے سے اپنی تحقیق میں ایک صاحب کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”ان کا کہنا  تھا کہ اپنی کتابوں کو اس طرح پہچانتا ہوں جس طرح اپنے بچوں کہ پہچانتا ہوں ان کے آخر وقت کا ایک واقعہ ہے جب مرض الموت ان پر طاری ہوا وہ اس وقت اپنے گھر کا نقشہ بھول گئے تھے یعنی کہتے تھے کہ مجھے اب یاد نہیں آرہا کہ میرے گھر میں کوٹھے کے اوپر کیا بنا ہوا ہے یا جس دالان میں میں لیٹا ہوا ہوں اس کی داہنی طرف کونسا حصہ ہے اس وقت انہوں نے مجھ سے کہا کہ جس الماری میں واجد علی شاہ کی کتابیں ہیں وہ کھول کر چار پانچ کتابیں لاؤ اور میں  دیکھوں کہ آیا اب بھی ان کو ان کی صورت سے پہچان سکتا ہوں یا نہیں؟ سب کو تو نہیں لیکن کچھ کتابوں کو انہوں نے پہچان لیا“ یہ تذکرہ لکھنؤ کے پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب مرحوم کا‘ اور یہ مثال ہے ان گنے چنے  لوگوں کی جنہوں نے کتاب کوبھی ویسے ہی چاہا جیسے اولاد کو۔ یہاں ہم لکھنؤ کے کتب خانوں اور دستاویزوں کے ذخیروں کی بات کر رہے ہیں تاریخ چاہے کچھ بھی کہے اس شہر کی روایت یہ تھی کہ واجد علی شاہ نے اس وقت چھاپہ خانہ لگایا جب بہت سے ہندوستانیوں نے کتاب کی شکل تک نہیں دیکھی تھی ان سے اودھ چھوٹا  تو علم کا ذوق ساتھ لئے وہ کلکتے پہنچے اور وہاں بھی سب سے پہلے وہی مطبع سلطانی قائم کیا اور مشین سے رات دن کتابیں نکلتی رہیں‘ مگر پھر جو حشر لکھنؤ کا ہوا وہی اسکے کتب خانوں کی درگت بنی زوال آیا تو بنیادوں میں اتر گیا چنانچہ علم کی وہ شاندار عمارتیں کبھی کی ڈھے چکی ہیں جو کچھ بچا ہے اس کی دیواروں میں بھی شگاف ہیں‘ لکھنؤ کے کتب خانوں پر ایک نگاہ ڈالیں تو سب سے پہلے امیر الدولہ پبلک لائبریری کا نام آتا ہے جہاں اردو‘ فارسی اور عربی کتابوں کا بہت اچھا ذخیرہ ہے خصوصاً تاریخ کے موضوع پر یہ جگہ کسی خزانے سے کم نہیں اس کے علاوہ لکھنؤ یونیورسٹی کا کتب خانہ ہے جو ٹیگورلائبریری کے نام سے مشہور ہے یہاں بھی چھپی ہوئی اور ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابوں کا اچھا ذخیرہ ہے لیکن ان کتب خانوں میں تحقیق کرنے والے سکالروں کو بہت تشویش ہے وہ کہتے ہیں کہ ان کا انتظام اچھا نہیں خصوصاً اردو کتابوں کی حالت خراب ہے اس کا سبب وہ یہ بتاتے ہیں کہ ان کتب خانوں کا جو عملہ ہے اس میں بیشتر لوگ ایسے ہیں جو اردو سے واقف ہی نہیں‘ تو اب صورت یہ ہے کہ محقق خود ہی جائیں اور سرگردانی کریں تو عجب نہیں کہ الماریوں اور بستوں کے اندر سے ایسے ایسے  بیش بہا خزانے نکلے کہ دنیائے علم کی آنکھیں چکاچوندھ ہو جائیں مثلاً لکھنؤ کی امیر الدولہ لائبریری کے بارے میں اردو کے مشہور محقق مشفق خواجہ نے بتایا وہاں ابھی ڈاکٹر اکبر حیدری کشمیری نے مخطوطات پر کام کیا تو بڑی عجیب عجیب چیزیں وہاں سے نکل رہی ہیں شعراء کے خود نوشتہ دوا وین اور بعض تصانیف جو انہوں نے اپنے قلم سے لکھی تھیں وہاں دستیاب ہوئی ہیں لکھنؤ میں ایک اور چیز بھی ہے جو تاریخی اور ادبی نقطہ نظر سے بڑی اہمیت رکھتی ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ اسے ابھی تک عام نہیں کیا گیا اور وہ ہے وثیقہ آفس کا ریکارڈ‘ وہاں پر لکھنؤ کے شاہی خاندان سے متعلق افراد کے بارے میں جتنی معلومات موجود ہیں وہ کسی دوسری جگہ نہیں کاش وہ اس ریکارڈ کو شائع کردیں۔