مشہورمصنف اور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی پرانی کتابوں اور لائبریریوں کے حوالے سے اپنی تحقیق میں لکھتے ہیں کہلکھنؤ کے وثیقہ آفس کا ذکر نکل آیا تو شہر کے سٹیٹ میوزیم کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اس بارے میں اردو اور فارسی کے محقق اور استاد ڈاکٹر نیر مسعود رضوی نے بتایا ایک اور اچھا مخزن کتابوں کا اور کتابوں سے زیادہ دستاویزوں کا‘ لکھنؤ کے سٹیٹ میوزیم میں ہے یہاں خرابی یہ ہے کہ یہاں مثلاً پورے بستے ہیں اور فہرست میں صرف یہ لکھا ہوا ہے منتشر تحریوں کا ایک بستہ‘ یا اگر بیاض ہے تو متفرق تحریروں کی بیاض لیکن وہ متفرق تحریریں کیا ہیں؟ کس کی ہیں؟ کتنی اہم ہیں؟ اس کا اس میں کوئی ریکارڈ نہیں ہے اور وہاں بھی وہی وقت ہے کہ وہاں جو لوگ کام کرتے ہیں وہ فارسی نہیں جانتے یا کم جانتے ہیں وہ پرانی فارسی اور پرانی تحریر کو پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو اس وجہ سے اس کی کیٹلاگنگ نہیں ہوسکی ہے‘ لکھنؤ کا جو کتب خانہ خصوصیت سے قابل ذکر اور قابل تعرف ہے وہ ندوۃ العماء کا کتب خانہ ہے جس میں اردو‘ فارسی اور عربی کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہے ایک تو خود اس ادارے نے علم کی راہوں میں کتابوں کے بے شمار چراغ روشن کئے ہیں دوسرے یہ کہ نہ معلوم کتنے اہل علم حضرات نے اپنے پورے پورے ذخیرے ندوۃ العمائے کو تحفے کے طور پر دے دیئے مثلاً مولانا عبدالحئی کا بے مثال کتب خانہ منتقل ہو کر ندوۃ العلماء میں چلا آیا اس طرح یہ ذخیرہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور اس کا انتظام بھی بہت اچھا ہے اگر آپ کو کوئی کتاب درکار ہے تو فوراً اچھی حالت میں ملے گی اور اپنی جگہ پر ملے گی دینی مدرسوں نے شہر لکھنؤ کو بہت سے کتب خانے دیئے ہیں مثلاً کتب خانہ ناصریہ جو مولانا ناصر الملک کا قائم کیا ہوا ہے اسی طرح مدرسۃ الواعظین سلطان المدارس‘ مدرسہ ناظمیہ‘ مدرسہ فرقافیہ‘ ان سب کے اپنے اپنے کتب خانے ہیں جو اگرچہ دینی کتابوں کیلئے مخصوص ہیں لیکن ان میں اور بھی بہت کچھ ہے مثلاً فارسی تذکرے‘ نشتر عشق کا ایک بہت اہم مخطوطہ سلطان المدارس میں ہے مگر اس سے شاید ہی کوئی فائدہ اٹھاتا ہو یہ کیسی ستم ظریفی ہے اسکے بعد آیئے شہر لکھنؤ کے ذاتی کتب خانوں میں چلیں کبھی سینکڑوں ہونگے مگر اب شمار کرنے کیلئے دو ہاتھوں کی انگلیاں بہت ہیں سب سے پہلے ذاتی ذخیرہ ریاست محمود آباد کا ہے اس کتب خانے کی مطبوعہ کتابیں تو محمود آباد ضلع سیتاپور میں ہیں لیکن تمام قلمی نسخے لکھنؤ کے محمود آباد ہاؤس میں محفوظ ہیں چونکہ راجاؤں کا جمع کیا ہوا کتب خانہ ہے اسلئے اس میں بعض نہایت اہم مخطوطے ہیں اس کے بارے میں پروفسیر گوپی چندنارنگ نے بتایا’جتنے بھی کلکشن پرائیویٹ تحویل میں رہتے ہیں ان سے عوامی سطح پر استفادہ ممکن نہیں ہوتا برسوں ایسے کتب خانوں اور ذخیرہ کے تالے بھی نہیں کھولے جاتے لیکن یہ واقعہ ہے کہ مہاراجا صاحب محمود آباد کی علم پروری‘ اردو دوستی اور انکی علم دوستی کی وجہ سے ہمارے دوست اکبر حیدری صاحب کو‘ جو کشمیر میں پڑھاتے ہیں اور لکھنؤ آتے جاتے رہتے ہیں مہاراجا صاحب کی وساطت سے کئی بار موقع ملا ہے وہ کتب خانہ ہر شخص کیلئے نہیں کھلا ہے لیکن اکبر حیدری صاحب نے وہاں سے دیوان میر لیا۔ انیس کے بہت سے نادر مراثی اور بہت سی غیر مطبوعہ تحریریں دریافت کی ہیں۔ لکھنؤ میں دوسرا بڑا ذخیرہ پروفیسر مسعود حسن رضوی مرحوم کا ہے یہ ایک فرد واحد کی کوشش‘ لگن اور علم سے عشق کا نتیجہ ہے وہ 1922ء کے لگ بھگ لکھنؤ یونیورسٹی میں استاد مقرر ہوئے تھے اور اسی وقت سے کتابیں اس طرح جمع کر رہے تھے کہ خود اپنے بہت سے ضروری اخراجات ترک کر دیئے تھے ان کے کتب خانے میں اردو اور فارسی کی بعض کتابیں نہایت نادر ہیں خاص طور پر مرثیوں کا ذخیرہ ان سے بہتر کسی کے پاس نہ تھا اسی طرح واجد علی شاہ کی جتنی تصانیف مسعود حسن رضوی ادیب کے ذخیرے میں موجود ہیں کہیں اور نہ ہوں گی ان کے شاندار ذخیرے کے قابل قدر حصہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو دے دیا گیا ہے جنہیں علم کی لگن ہو ان کا بڑا عالم‘ محقق‘ استاد یاراجامہاراجا ہونا ضروری نہیں لکھنؤ اس معاملے میں بڑا خوش نصیب شہر ے مسعود حسن رضوی مرحوم کے صاحبزادے ڈاکٹر نیئر مسعود رضوی نے ایک دلچسپ شخصیت کے بارے میں بتایا‘ محمد رشید صاحب سیکرٹریٹ میں ملازم ہیں کوئی بڑے عہدے پر نہیں ہیں لیکن انکے شوق کا یہ عالم ہے کہ اگر کوئی کتاب ان کو نظر آجائے جو برائے فروخت نہیں ہے تو وہ پوری کتاب نقل کرلیں گے خود میرے والد مرحوم کے ذخیرے کی بعض کتابیں جو تین تین سو صفحے کی تھیں وہ انہوں نے عاریتا لیں اور تین تین چار چار راتیں جاگ جاگ کر خود‘ اور گھر والوں کو ملا کرپوری پوری کتاب نقل کی ہے یا کسی رسالے میں کوئی اچھا مضمون نظرآیا اور وہ رسالہ ان کی دسترس میں نہیں ہے تو وہ پورا مضمون نقل کرلیا اسکے علاوہ کتابیں خریدتے بھی ہیں۔
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات