تذکرہ کتابوں اورایک ملاقات کا

مشہورمصنف اور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی پرانی کتابوں اور لائبریریوں کے حوالے سے اپنی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ اسی طرح لکھنؤ کے اسلم محمود صاحب ہیں جو وزارت قانون میں اوقاف کے شعبے میں ملازم ہیں ان کو بھی کتابیں جمع کرنے کابڑا شوق ہے اور اس مد میں وہ بڑی رقم صرف کرتے ہیں ان کے احباب بتاتے ہیں کہ وہ جب کبھی سرکاری دوروں پر جاتے ہیں تو الاؤنس کی ساری رقم کتابوں کیلئے وقف کر دیتے ہیں بہت سی کتابیں ایسی ہیں جو یورپ میں چھپی ہیں اور ہندوستان میں ان کی پہلی کاپی اسلم محمود صاحب کے پاس آئی ہے پاکستان میں چھپنے والی تمام اہم کتابیں ہندوستان میں اور کسی کے پاس ہوں یا نہ ہوں اسلم محمود صاحب کے پاس یقینا ہوں گی ایک اور صاحب کے بارے میں نیر مسعود رضوی صاحب نے بتایا”محمد اسحاق صدیقی صاحب ہیں رشید صاحب اور اسلم صاحب کو صرف کتابیں جمع کرنے کا شوق ہے خود لکھتے نہیں ہیں اگرچہ میں بہت اصرار کرتا ہوں کہ ہم لوگوں کو بھی مستفید کیجئے اپنے مطالعہ سے‘ لیکن وقت نہیں ملتا کچھ اس طرف ان لوگوں کی طبیعت نہیں آتی اسحاق صدیقی صاحب لکھتے  بھی ہیں علمی موضوعات‘ سائنسی موضوعات‘ مذاہب کا تقابلی مطالعہ اس طرح کے مضامین برابر لکھتے ہیں کئی کتابیں بھی ان کی چھپ چکی ہیں اور ایک کتاب پر یونیسکو کا انعام بھی مل چکا ہے لیکن وہ بھی محدود وسائل کے آدمی ہیں البتہ جہاں تک ہو سکتا ہے جتنی گنجائش نکل سکتی ہے وہ سب کتابوں کی خریداری پر صرف کر دیتے ہیں۔ ڈبے لالا کر جمع کریں گے پھر اس میں کتابیں سجائیں گے ان کو ایک اور بہت دلچسپ شوق اخباروں کے تراشے جمع کرنے کا ہے اور بڑی ہی خوش ترتیبی کے ساتھ ہزاروں تراشے جمع کئے ہوئے ہیں آپ جس موضوع پر چاہیں ان سے اخباروں کے پچاس ساٹھ تراشے حاصل کرسکتے ہیں اور وہ بھی اسی طرح کمربستہ ہیں کہ جب آپ کو کوئی ضرورت ہو وہ حتی الامکان آپ کی مدد کرینگے‘ اسکے بعد نیر مسعود رضوی صاحب نے کہا کہ ان کے نزدیک یہ ذاتی ذخیرے والے حضرات زیادہ قابل قدر ہیں البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے ذخیروں کی باقاعدہ فہرست سازی ہونی چاہئے کیونکہ اس میں وقت یہ ہوتی ہے کہ جو شخص خود کتابیں جمع کرتا ہے اس کو ہر کتاب کا پورا احوال معلوم ہوتا ہے لیکن بعدوالوں کیلئے بڑی پریشانی ہو جاتی ہے نیز مسعود رضوی صاحب کو اس کا ذاتی تجربہ ہے ان کے والد پروفیسر مسعود صاحب کو ہر کتاب کا علم تھا چنانچہ فہرست کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی نیر مسعود صاحب کے بقول ابا کو اگر کوئی کتاب نکلوانا ہوتی تھی تو کہتے تھے کہ فلاں کمرے میں فلاں الماری ہے اس کے تیسرے خانے میں داہنے ہاتھ سے پانچویں کتاب ہے اتنی موٹی ہے سرخ رنگ کی جلد ہے اور کتھی رنگ کے چمڑے کی پشتی ہے۔پشمینے کی شال؟ایک اور مقام پر رضا علی عابدی اپنے ایک سفر کی روداد میں لکھتے ہیں کہ اپشی سے ذرا اوپر بکریوں کا سرکاری فارم ہے جن سے پشمینہ حاصل ہوتا ہے وہی نرم اور ملائم اون کہ سرینگر میں جس کی ایک ایک سادہ اور معمولی شال بارہ بارہ ہزار روپے کی تھی‘ میں فارم میں پہنچا تو اسی چرواہے سے ملاقات ہوئی جو ابھی ان پتھریلی زمینوں میں نغموں کی فصلیں اگا رہا تھا‘اس کا نام محمد علی خان تھا‘ سیدھا سادہ‘ بھولا‘تمیز دار اور ہر بات میں سرسر کا اضافہ کرنے والا‘ محمد علی خان نے مجھے پشمینے کی بکریوں کے بارے میں کچھ بتایا اس فارم میں سات بکریاں ہیں سال میں ایک باران کے بالوں میں کنگھی کی جاتی ہے اور کنگھی میں پھنس کر جو ملائم بال اترتے ہیں‘وہی رئیسوں کی شالوں‘سوئٹروں‘جرابوں اور دستانوں میں ڈھل جاتے ہیں‘ایک ایک بکری سے دوسو سے لے کر پانچ سو گرام تک پشمینہ اترتا ہے یہ بکریاں بس یہیں اتنے اونچے علاقوں میں ہوتی ہے‘نیچے میدان انہیں راس نہیں آتے چونکہ قیمتی ہوتی ہیں اس لئے ان کی نگرانی کے لئے چرواہے رکھے جاتے ہیں وہ نہ ہوں تو پہاڑوں سے اترنے والے درندے انہیں کھا جائیں ان کی حفاظت کرتے کرتے چرواہوں کو ان سے لگاؤ تو ضرور ہوتا ہوگا بکریاں خود بھی اپنے چھوٹے چھوٹے دلوں میں اپنے ان رکھوالوں کے لئے وہ جذبہ محسوس کرتی ہوں گی جن کا ان کے ہاں کوئی نام نہ ہوگا بس یہ کہ ان میں کوئی تصنع نہ ہوگا کوئی بناوٹ نہ ہوگی کوئی غرض نہ ہوگی میں ان کے دلوں میں جھانک نہ سکا البتہ محمد علی خان سے بات کرتے کرتے باتوں کارخ ادھر کو ایک بار ضرور موڑا‘میں نے پوچھا’اس ویرانے میں یہی بکریاں آپ کی ساتھی اور رفیق ہوتی ہیں ان سے تو آپ کو محبت ہوجاتی ہوگی؟“ وہ بولے’جی سر‘ یہ تو ہمارے بچوں کی طرح ہیں ہم انہیں ہر صبح گھاس ڈالتے ہیں ان کوچرانے کیلئے لے جاتے ہیں اور صبح شام انکے شیڈوں کو صاف کرتے ہیں انہیں اچھی طرح دودھ پلاتے ہیں اور پانی بھی پلاتے ہیں۔