دو شہر دو المیے (تیسرا حصہ)

 کم ہی پاکستانی ایسے ہوں گے جنکا مری سے رومانس نہ ہوگا ملکہ کوہسار مری اور گلیات سے میری وابستگی کا یہ عالم ہے کہ امریکہ کا کوئی تفریحی مقام مزہ نہیں دیتا نیاگرا فالز جیسے ونڈر آف دی ورلڈ سے لیکر ڈزنی لینڈ اور کئی نیشنل اور سٹیٹ پارکس دیکھ لئےFinger Lakes کی جھیلیں‘ آبشاریں‘ تناور درختوں میں چھپی بل کھاتی پگڈنڈیاں اور ان پر جگہ جگہ بنے Lakeside Restaurants جو میرے گھر سے ایک گھنٹے کی ڈرائیو پر ہیں کئی مرتبہ انجوائے کئے مگر ان میں وہ سرور‘ طمانیت اور اپنائیت نہیں جو گلیات کے چناروں میں ہے یہاں سے دو گھنٹوں کے فاصلے پر واقع Lake George کی مین سٹریٹ پر البتہ مجھے مری کے مال روڈ کی جھلک نظر آئی تھی ا س شاہراہ کے دونوں طرف ریسٹورنٹس‘ ہوٹل‘ شاپنگ سنٹرز‘ آئس کریم پارلرز‘نیم برینڈ سٹورز اور گیلریز کی کمی نہ تھی مگر یہاں حلال فوڈ کا کوئی ریسٹورنٹ نہ تھا ہم گھر سے کھانا ساتھ لائے تھے مگر وہ ہوٹل میں پڑا تھا پوتے پوتیوں کیساتھ گھو متے ہوے بھی اجنبیت محسوس ہو رہی تھی ایسی جگہوں پر مجھے مری کا مال روڈ اور اس پر واقع Lintotts اور Sam's ریسٹورنٹس یاد آ جاتے ہیں Sam's کی جگہ اب غالباّّ Red Onion ریسٹورنٹ ہے اس سے اوپر اپر مال کی طرف جائیں تو جی پی او کی خوبصورت عما رت ہے دن ہو یا رات اسکی درجنوں کشادہ سیڑھیوں پر سیاح بیٹھے ہوتے ہیں۔ میں 1970 کی دہائی کے مری کی بات کر رہا ہوں جی پی او کی طرف دیکھیں تو دائیں طرف کا راستہ پنڈی پوائنٹ کی طرف جاتا ہے اور بائیں طرف ایک کونے میں ٹیلی گراف کی عمارت ہے یہاں شام کے وقت سیاحوں کا ہجوم ہوتا تھا وہ سب یہاں اپنے اپنے گھروں کو فون کرنے کیلئے آتے تھے اس جگہ اکثر اپنی باری کا انتظار کرتے کرتے شام گذر جاتی تھی مگر والدین کے حکم کے مطابق ہر دوسرے تیسرے دن فون کر کے اپنی خیریت کی اطلاع دینی ہوتی تھی ہم چھ سات دوست ہر سال گرمیوں میں گلیات جاتے تھے پشاور سے راولپنڈی ویگن پر اور وہاں سے پرانی شور مچاتی لاری پر مری جانا گویا خوابوں کی سرزمین کاسفر تھا اس دن کا انتظار ہم سب دوست سارا سال کرتے تھے
ہم بھی سوتے تھے کوئی یاد سرہانے رکھ کر
ہاں مگر گردش ایام سے پہلے پہلے
 وہ ہانپتی کانپتی لاری جب بمشکل تمام سنی بینک پہنچتی تھی تو ہمارے دل کھل اٹھتے تھے اس جگہ کے آس پاس کلڈانہ روڈ‘ باڑیاں روڈ‘ جھیکا گلی‘ لارنس کالج‘ لوئر ٹوپہ اور بھور بن کی طرف جانی والی سڑکیں آتی تھیں مری کے اڈے پر اترتے ہی پہاڑی مزدور سامان اٹھانے آ جاتے تھے انکی آنکھیں پنڈی سے آنیوالی بسوں پر لگی ہوتی تھیں ان دنوں گلیات کا سیزن جون میں شروع ہو کر ستمبر میں ختم ہو جاتا تھا سردیوں میں برفباری کے موقع پر ہجوم نہ ہوتے تھے۔ گلیات کے لوگوں نے سال بھر کا رزق انہی چار مہینوں میں کمانا ہوتا تھایہاں کے لوگ ہم سے رہائش خوراک اور دیگر خدمات کے جو دام لیتے تھے وہ پنڈی پشاورکے نرخوں سے تو بہت زیادہ ہوتے تھے مگر نا مناسب نہ تھے ہم بھی جانتے تھے کہ آٹھ مہینے انہوں نے بیروزگار رہنا ہے اسلئے وہ مہنگائی ہمیں بری نہ لگتی تھی اڈے سے ہمارا سامان مال روڈ تک لیجانے والے مزدور ہمیں مختلف ہوٹلوں اور فلیٹوں کے کرائے بھی بتا رہے ہوتے تھے اس دلکش اور دلربا مال روڈ تک پہنچتے پہنچتے ہم نے رہائش کا بندو بست کر لیا ہوتا تھا مری میں گرم پانی کے نہ ملنے کی شکایت کبھی کبھار ہوتی تھی ہوٹل یا فلیٹ کا مالک ہر ممکن طریقے سے ہمارے آرام کا خیال رکھتا تھا ہر سال کسی نئی جگہ قیام ہوتا تھااورہر سال ایک نیا مری ہمارا منتظر ہوتا تھا قاسمی صاحب نے شائد مری ہی کے بارے میں کہا ہے
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا
 ہم ہر صبح ناشتے کے بعد جی پی او کا رخ کرتے اور وہاں سے دس گیارہ بجے پنڈی پوائنٹ کی طرف چل پڑتے کئی میلوں پر پھیلی اس صاف ستھری سڑک کے نیچے گہرائیوں میں درختوں کے جھنڈ میں چھپے کچے پکے مکانوں کا منظر عجب لطف دیتا تھا شام کے ملگجے سے پہلے ہم کشمیر پوائنٹ پہنچ جاتے تھے دو چار گھنٹے وہاں گھوم پھر کر رات دیر سے واپسی ہوتی تھی ہر سال اس Tripکا کلائمکس مری سے نتھیا گلی پیدل جانا ہوتا تھا بیس میل کا یہ پہاڑی سفر دس گیارہ گھنٹے میں طے ہوتا تھاہر طرف جنگلوں‘ گلستانوں‘ آبشاروں اور فلک بوس پہاڑوں کی دنیا آباد تھی یہاں زیادہ تر چنار کے درخت ہوتے ہیں کہیں کہیں صنوبر‘ شاہ بلوط اور میپل یا اسفندان کے درخت بھی نظر آجاتے ہیں بیس میل کے اس راستے میں خیرا گلی‘ ڈونگا گلی‘ ایوبیہ‘ چھا نگلہ گلی‘ اور جھیکا گلی جیسے دلفریب اورروح پرور مقامات آتے ہیں مری کو نتھیا گلی سے ملانے والی پکی سڑک سے کچھ دور پہاڑوں کی اوٹ میں کچے راستے بھی پھیلے ہوئے ہیں ہم انہی راستوں پر بندروں کی اُچھل کود کے مناظر دیکھتے ہوے سفر جاری رکھتے تھے اکثر راستے میں شور کرتے گونجتے گھنگھور کالے بادل برسنا شروع ہو جاتے ایسے میں ہم بھاگ کر درختوں کے کسی جھنڈ میں پناہ لیتے سڑک قریب ہوتی تو وہاں کسی پہاڑی ہوٹل میں مزیدار گرم گرم چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے باہر قیامت خیز بارش کا منظر دیکھتے آرزو لکھنوی نے یہ شعر ایسے ہی لمحات کیلئے کہا ہے
ہاتھ سے کس نے ساغر ٹپکا موسم کی بے کیفی پر 
اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا میخانہ بھی 
بارشوں کے یہ جھکڑ گلیات میں اکثر آتے ہیں کبھی جلد چلے جاتے ہیں اور کبھی رات بھر برس کر پہاڑوں کو جل تھل کر دیتے ہیں